تبدیلی مذہب کے بعد ذات سے تعلق برقرار نہیں رہ سکتا: مدراس ہائی کورٹ
مدراس ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ایک شخص جس نے دوسرا مذہب قبول کیا ہے وہ اُس وقت تک تبدیلی مذہب سے پہلے کے کمیونٹی فوائد کا دعویٰ نہیں کرسکتا جب تک کہ ریاست کی طرف سے واضح طور پر اجازت نہ دی جائے۔

چینائی: مدراس ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ایک شخص جس نے دوسرا مذہب قبول کیا ہے وہ اُس وقت تک تبدیلی مذہب سے پہلے کے کمیونٹی فوائد کا دعویٰ نہیں کرسکتا جب تک کہ ریاست کی طرف سے واضح طور پر اجازت نہ دی جائے۔
مدورائی بنچ کے جسٹس جی آر سوامی ناتھن ایک امیدوار کی درخواست کی سماعت کررہے تھے جس کے ذریعہ ٹاملناڈو پبلک سرویس کمیشن کی کارروائی کو چالینج کیا گیا تھا کہ اس کے ساتھ ”پسماندہ طبقہ (مسلم)“ کے طور پر برتاؤ نہیں کیا گیا اور مشترکہ سیول سرویس امتحانII (گروپIIسرویسس) میں ”جنرل زمرہ“ میں تصور کیا گیا۔
ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ آیا کسی ایسے شخص کو کمیونٹی ریزرویشن کا فائدہ دیا جاسکتا ہے جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ زیر سماعت ہے۔ لہٰذا ہائی کورٹ کو اس معاملہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا ہے۔ عدالت نے کہا کہ جیسا کہ ایس یاسمین کیس میں مشاہدہ کیا گیا ہے‘ کوئی شخص تبدیلی مذہب کے بعد اپنی برادری سے وابستہ رہنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
آیا تبدیلی مذہب کے بعد بھی ایسے شخص کو تحفظات کا فائدہ دیا جانا چاہئے یا نہیں‘ یہ ایک سوال ہے جو سپریم کورٹ کے سامنے زیر التواء ہے۔ جب معزز سپریم کورٹ کو اس معاملہ سے واقف کرادیا گیا ہے تو اب یہ عدالت درخواست گزار کے دعویٰ کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔
لہٰذا عدالت نے ٹی این پی ایس سی کے فیصلہ میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ کمیشن کا فیصلہ درست ہے۔ درخواست گزار ایک ہندو تھا اور انتہائی پسماندہ طبقہ (ڈی این سی) سے تعلق رکھتا تھا۔
اس نے 2008 میں اسلام قبول کیا تھا اور گزٹ میں بھی اس کا اعلان کیا تھا۔ اسے 2015 میں زونل نائب تحصیلدار کے ذریعہ کمیونیٹی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا جس میں یہ تصدیق کی گئی تھی کہ درخواست گزار کا تعلق ”لبیس“ برادری سے ہے۔ (یہ مسلمانوں کے اندر ایک پسماندہ گروپ ہے)۔