رﺅف راہی سلطان پوری
بہت ہی دکھ کی بات ہے کہ ترکی میں آئے زلزلے نے ہزاروں لوگوں کی جان لے لی ہے۔ آج بھی ملبے میں کئی لوگ پھنسے ہوئے ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔ آخر یہ زلزلہ کیا ہوتاہے۔ بس اتناکہ زمین نے انگڑائی لی اور ہستی کھیلتی بستی پل بھر میں اجڑ جاتی ہے۔ ترکی اور شام میں ہر آنے والا دن معصوم عوام کے لیے ایک نئی قیامت ثابت ہونے لگاہے۔ اس زلزلے نے ترکی کو پندرہ سے بیس سال پیچھے دھکیل دیاہے۔ ملبوں سے لاشیس نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن زندہ بچ جانے والوں کی امیدیں رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔ زلزلے کی شدت 7.8 بتائی جارہی ہے۔ زلزلے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ زلزلوں کو قدرت کی دین سمجھ کر ہر ملک نے انہیں سہہ لیاہے۔ کبھی کسی زلزلے پر نہ سوال اٹھا ئے گئے اور نہ ہی انہیں شک کے دائرہ میں لیاگیا۔ لیکن 6 فروری کو ترکی میں جو زلزلہ آیا اس کے بارے میں سوال کیاجا رہاہے کہ کیا یہ قدرت کی کارستانی ہے یا ترکی کو نشانہ بنانے کے لیے کسی جدید تکنیک کا استعمال کیاگیاہے۔ یہ ایسا سوال ہے جو سوشیل میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکاہے۔ یہ ایسا سوال ہے جسے نظرانداز کرکے آگے بھی نہیں بڑھا جاسکتا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں سب کچھ ممکن ہے تو آئیے جائزہ لیتے چلیں کہ لوگوں میں اس شک کے پیدا ہونے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ اس معاملے میں لوگ دو بنیادی سوال اٹھارہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ترکی کے لوگوں نے دورداراز علاقے میں ایک بجلی کا طوفان دیکھا جو عام طورپر کسی ایٹمی دھما کے یا میزائل اٹیک کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس وجہ سے لوگ شک کررہے ہیں کہ کہیں ہارپ ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ زمین کے اندر موجود پلیٹوں کو آپس میں ٹکراکر زلزلہ تو نہیں لایا گیا۔ اگر ایسا ہے تو آئیے پہلے جانتے ہیں کہ یہ ہارپ ٹکنالوجی آخر ہے کیا۔
The High-frequency Active Auroral Research Programامریکہ کی ریاست الاسکا میں چلنے والی یہ ریسرچ پراجکٹ کا نام ہے۔ 35 ایکر پر مشتمل ایک سو ٹاورس اور اینٹینا لگائے گئے ہیں۔ جن کی اونچائی 72 فٹ ہے۔ ان کو آپس میں جوڑکر ایک بڑا اینٹین بنایا گیاہے۔ جس کے سہارے تین بلین واٹ الکٹرانکس میگنا ئیٹک شعاعیں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ جن کا مقصد مصنوعی موسم پیدا کرنا ہوتاہے۔ یعنی کسی بھی ملک کی ارا ضی کے اندر چھپے خزانے تلاش کرنا اور وائرلیس ٹکنالوجی کا استعمال کرنا، کسی بھی ملک کو بارش سے محروم کرکے اس علا قے کو بنجر بنا دینا یا حد سے زیادہ بارش برساکر سیلاب لانا‘ بے موسم برف باری کرنا جنگلوں میں آگ لگانا یہاں تک کے ان شعاعوں کی مدد سے فضا میں پرواز کرتے ہوئے جہا ز کے انجن کو آگ بھی لگائی جاسکتی ہے۔ اسی ٹکنالوجی کی مدد سے کہا جاتاہے کہ امریکہ نے اپنے ملک کی حفاظت کا ایسا انتظام کیاہے کہ کوئی بھی میزائل یا ایٹم بم اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ قصہ مختصر ہارپ انسانی دشمن کا دوسرا نام ہے۔
اگر ترکی کے زلزلے کو ہارپ کی کارستانی مان لیا جائے تو کیا کوئی ما ضی میں ایسی مثال بھی مل سکتی ہے کہ اس انسانی دشمن نے کسی اور دیش کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہو۔ چلئے ما ضی میں جھانکتے ہیں۔ سال 2011 میں جاپان کی سونامی کو کون بھلا سکتا ہے۔ ان دنوں جاپان بے حد ترقی کے راستہ پر تھا اور امریکہ کو بھی کو پچھاڑ کر رکھ دیا تھا۔ امریکہ نے دھمکی بھی دی تھی کہ تم کو معا شی طورپر تباہ کردیا جائے گا۔ جاپان نے سنی ان سنی کردی۔ نتیجے میں سونامی آئی اور جاپان کی معا شی حالت تہں نہں ہوکر رہ گئی۔ جاپان نے امریکہ پر اس تخریب کا ری کا الزام بھی لگایا تھا۔پا کستان کا تباہ کن سیلاب، چین کاسیلاب آئیس لینڈ میں آتش فشاں کا پھٹنا ان پر بھی یہی الزام لگا ئے گئے تھے۔پھر یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتاکہ اگر یہ امریکہ کی سازش ہے تو ترکی کو کیوں نشانہ بنا یا گیا۔ قصور کیا تھا ترکی کے معصوم عوام کا۔ اس سوال کے جواب میں بھی ہم کوکچھ واقعات کا جا ئزہ لینا ہوگا۔ ترکیہ ناٹو کا ممبر ہے۔ بات جب فن لینڈ اور سویڈن کو ناٹو میں شا مل کرنے کی آئی تو ترکیہ کے صدر طیب اردغان نے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرکے اس کی سخت مخالفت کی۔ ان کاکہنا تھاکہ یہ دونوں دیش یعنی فن لینڈ اور سو یڈن کردستان پارٹی کا ساتھ دیتے رہے ہیں جو کئی سالوں سے ترکیہ سرکار کے خلاف ہتھیار بند جنگ چھیڑے ہوئے ہیں اور تختہ الٹنے کی بھی کوشش کی ہے۔ یہ سویڈن وہی ملک ہے جہاں ایک ملعون نے قرآن پاک کو جلانے کی کوشش کی تھی، جس کا طیب اردغان نے سخت نوٹس لیا تھا۔ ترکیہ کے اس اعتراض پر ناٹو کے سب سے بااثر ملک امریکہ نے اپنے ہمنوا ملکوں کو لے کر پروٹو لول پر دستخط کرکے نہ صرف فن لینڈ او رسویڈن کا ناٹو میں استقبال کیا بلکہ ترکیہ کو وارننگ بھی دے ڈالی۔ایک اور وجہ قبرص نامی ملک ترکیہ کے جنو ب میں شام کے مغرب میں اور اسرا ئیل کے شمال میں واقع ہے۔ قبرص کی غلط حرکتوں کی وجہ سے 1974میں ترکیہ فوج نے حملہ کرکے قبرص کے آدھے حصہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ آج بھی وہاں ترکیہ کے 35ہزار فوجی تعینات ہیں۔ طیب اردغان کا ماننا ہے کہ قبرص کو دو دیش ما نا جائے، لیکن اس اپیل کو ٹھکراکر گریک قبرص کی ہی حمایت کی گئی۔شک کرنے کی ایک اور وجہ نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے فرانک موگر نے تین فروری کو شام پانچ بج کرتین منٹ پر ٹو یٹ کیا تھاکہ 7.8کا شدید زلزلہ ترکی، شام اور دیگر علاقوں میں آنے والا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ شخص کون ہے اور 72گھنٹے پہلے اسے پتہ کیسے چلا اور کچھ بڑے ممالک نے ترکیہ میں موجود اپنے قونصل خانہ بند کر انہیں واپس بلا لیا تھا۔ اردن اور شام کی سرحدیں اسرائیل سے ملی ہوئی ہیں، مگر زلزلہ کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں پڑا اور سب سے بڑی ایک ایسی وجہ جس سے ترکیہ نے اپنے اطراف بہت سے حریف پیدا کرلیے ہیں، جولائی 2023 میں ختم ہونے والا سوسا لہ معا ہدہ ہے۔ ایک ایسا معا ہدہ جس میں ترکیہ پر سو سا ل سے بہت سی پا بندیاں عا ئد کی گئی تھیں۔
اب چند ماہ میں ہی ترکیہ اس معا ہدہ سے آزاد ہو جائے گا۔ تاریخ میں پیچھے جائیں تو پتہ چلتاہے کہ 1922 سے پہلے سعودی عرب کا کوئی وجو د نہیں تھا۔ آج کا سعودی عرب ان دنوں حجا ز مقدس کہلا تا تھا اور اس پر خلافت عثما نیہ کا راج تھا۔ مسلمانوں کی یہ سلطنت اپنے سنہرے دور میں تین براعظم پر پھیلی ہوئی تھی اور 633 سا ل تک قا ئم رہی۔ یہو د و نصاری سب اس سے خوفزدہ تھے۔ انہوں نے ہی ایک سا زش کے تحت خلافت عثمانیہ کو ختم کردیا اور حجاز مقدس سعودی عرب بن گیا۔یہ بات یقینی ہے کہ معاہدہ کے ختم ہونے کے بعد ترکیہ آزاد ہوکر اپنا حق ما نگنے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا سو سا ل پہلے خلافت عثمانیہ کا جو خوف طاری تھا، وہ پھر سے طاری ہونے لگاہے۔ آزاد ہونے کے بعدترکیہ پر سے سا ری پا بندیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ اپنی سرزمین سے خزانے نکا ل سکے گا۔ جیسے تیل، گیاس ودیگر معدنیات۔ ترکیہ ابھی سے تیل نکالنے کی تیاریاں کرنے لگاہے۔ سمندری راستے ترکیہ کے ہوں گے۔ سو سال سے دنیا تجارت کے لیے ان راستوں کو استعمال کررہی تھی مگر ترکیہ کو حق نہیں تھا ٹیکس وصول کرنے کا جبکہ تجارت کے سمندری راستے سا ری دنیا کے لیے کسی ریڑھ کی ہڈی سے کم نہیں ہیں۔ اگر یہ معا ہدہ ختم ہوجاتا ہے تو ترکیہ پورے عالم میں ایک بہت بڑی طاقت بن کر ابھر نے والا تھا۔ لہٰذا ان باتوں کوپیش نظر رکھ کر ہی شا ئد لوگوں کو شک ہوا ہوگا کہ زلزلہ قدرتی نہیں بلکہ ایک سا زش ہے اور اس شک میں کتنی سچائی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا پا ئے گا۔ خدانخواستہ اگر عوام کا شک صحیح نکلتا ہے تو ترکیہ کی بربادی کے پیچھے امریکہ کی ہارپ ٹکنالوجی کا ہاتھ ہے توہم کیا کرسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انہیں برا بھلا کہیں گے اور بد دعا دے کرپھرسب کچھ بھول جائیں گے۔ کبھی ہم نے سوچنے کی کوشش کی کہ یہ ساری جدید ٹکنالوجی چا ہے وہ تعمیری ہو یا تخریبی یہود ونصاری کے پاس ہی کیوں ہے۔ ہمارے پاس کیوں نہیں۔ اس لیے کہ وہ صرف دعا نہیں کرتے بلکہ عمل بھی کرتے ہیں۔ یہ دنیا دارالعمل ہے، قدرت کنجوس نہیں ہے۔ صلا حیتیں تو سب کو دی گئی ہیں، لیکن جو عمل کرتاہے پھل اسی کو ملتاہے۔ اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم ڈیویڈ بن گورین ایک روز کچھ جلدی میں گھر سے جارہا تھا۔ بیٹی نے یاد دلایا آج دیوارگریاں پر سا لانہ دعا کرنے کا دن ہے۔ بن گورین نے جواب دیا، اپنے ملک کا ایک بہت ہی اہم کام کرنے جارہا ہوں۔ بیٹی نے پوچھا سا لانہ دعا سے بڑھ کر اہم کام اور کیا ہو سکتاہے۔ بن گورین نے ایک تاریخی جواب دیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ اگر کام صرف دعا سے ہوتے تو دنیا بھرکے مسلمان اسرائیل کی تباہی و بربادی کی روز دعا کرتے رہتے ہیں، لیکن عمل سے عا ری ہیں اور کروڑوں مسلمان میرے اس چھوٹے سے ملک کے آگے بے بس ہیں۔ دوستو! ایک کڑوا سچ ہے۔ سچ میں اگرمسا ئل دعا ؤں اور التجاؤں سے حل ہوتے تو نہ غزوہ بدر کے لیے جانا پڑتا اور نہ احد کی مشقتیں اٹھا نی پڑتیں اور نہ ہی خندق کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتیں!
٭٭٭