مذہب

جھینگا کھانے کی شرعی حیثیت

اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم پر اَن گِنت انعامات واحسا نات فرمائے ہیں ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہی جانور حلال قرار دئیے جن کا کھانا انسان کی صحت وسلامتی کا ضامِن ہو اور جن کا کھانا انسان کی صحت وسلامتی کے لئے مُضِر او ر مفسد ِاخلاق ہے ان چیزوں کو رب کریم نے حرام کردیا۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم پر اَن گِنت انعامات واحسا نات فرمائے ہیں ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہی جانور حلال قرار دئیے جن کا کھانا انسان کی صحت وسلامتی کا ضامِن ہو اور جن کا کھانا انسان کی صحت وسلامتی کے لئے مُضِر او ر مفسد ِاخلاق ہے ان چیزوں کو رب کریم نے حرام کردیا، چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے: حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالْدَّمُ (اے مسلمانوں ) تم پر مردار کا گوشت اور خون حرام کردیا گیا۔

چونکہ جب کوئی جانور طبعی موت مر جائے تواس کی رگوں اور شریانوں میں خون جم جاتاہے اور مردار جانور کے جسم میں ایک فاسد مادہ پیدا ہوجاتاہے، جس کو کھانے سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتاہے، اس لئے مردار جانور کو حرام کردیا گیا، اسی طرح جھٹکے کا گوشت ( تلوار سے ایک ہی مار میں جانور کی گردن جسم سے الگ کر د ی گئی ہو)اس عمل میں بھی خون رگوں اور شریان میں جم جاتاہے اس لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ جانور کو شرعی طریقے سے ذبح کرکے کھائیں تاکہ جانور کے خون کا ایک ایک قطرہ اس کی شریانوں کے راستہ سے بہہ جائے اور اس کا جسم تمام مضر اثرات سے پاک ہوجائے۔

یہ حق ہے کہ انسان کے کھائے جانے والی چیزوں اور جانوروں میں اصلی حا لت حلال ہے، بعض جانوروں میں کسی مضر وخبیث کی وجہ سے شریعت نے حرام کردیا اور پاکیزہ چیزیں حلال قرار دی، چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشادِ باری ہے: یَسْأَلُونَکَ مَاذَا أُحِلَّ لَہُمْ قُلْ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَات (مائدہ !۵؍۴) اے حبیب وہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کون سی چیزیں حلال کی گئیں ہیں، آپ فرما دیجئے کہ تمھارے لئے پاک چیزیں حلال کی گئیں ہیں ۔ ربِ کریم کا انسان پر یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے صرف پاکیزہ و مفید چیزیں حلال فرمائی ۔

حلال وحرام چیزوں کے متعلق جو حدیث شریف وارد ہوئی ہے وہ جوامع الکلم میں سے ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا یہ اعجازہے کہ آپ نے دو جملوں میں حرام وحلال کا ذکر کردیا، جیسا کہ مسلم شریف میںہے۔ نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کل ذی نابٍ مِن السباعِ وعن کل ذی مِخلَب مِن الطیرِ(مسلم ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کُچلیوں والے درندوں اور ناخن والے پرندوں کو کھانے سے منع فرمایاہے ۔

اس حدیث شریف میںچیر پھاڑ کرنے والے درندے اور پرندے مراد ہیںنہ کہ ہر دانت اور ناخن والا جانور ہر وہ جانور جو جھپٹتاہو ،لوٹ مارکرتا ہو ، عادۃ زخمی کرتا ہو جیسے کُتا ،بـلّی، شیر ، چیتا، بھیڑیا،چِیل،گِدھ،طوطا وغیرہ ان جانوروں کو انسان کی کرامت کی وجہ سے حرام کیا گیا کیونکہ ان جانوروں کا گوشت کھانے سے انسان میں ان جانوروںکے اوصاف پیدا ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے، (یعنی درندہ صفت) اسی طرح ’حشراتُ الارض‘ (یعنی زمین پر رینگنے والے جانور وکیڑے)کو اسلام نے حرام کیا جیسے کیڑے ،مکوڑے ، بجّو،کچو ا ،کیچو ا، چھپکلی ،گرگٹ ،سانپ وغیرہ یہ سب زمین پر رینگتے ہوئے چلتے ہیں فرمانِ خدا ندوی ہے ویحّرم علیھم الخبائث (نبی کریم ﷺ) تم پرخبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں ۔ خبیث سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو طبیعت نا پسند کرتی ہو اور اس نفرت کرتی ہو شریعت مطہرہ نے ان چیزوں کو حرام کیا۔ حرام کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہیں۔ حرام وحلال کے درمیان ایک درجہ مکروہ تحریمی اور مکروہ تنزیہی کا ہے۔

مکروہ تحریمی جوحرام کے قریب ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔ جیسے جھینگاجو آج کا موضوع بحث ہے ۔ دور حاضرکا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری دعوتوں میں کامپٹیشن کا مسئلہ چل پڑا اور زیادہ سے زیادہ ایٹم رکھنے کی چکر میں حلت وحرمت کی تمیز باقی نہ رہی اور اسمیں اسراف (فضول خرچی) بھی ہے اور شہرت طلبی بھی ہے۔ یہ سب معا ملات شریعت اسلامیہ میں جائزنہیں ان امور سے ہر ایک کو بچنا ضروری ہے حیدرآباد شہر میں جھینگا کھانے کا رواج عام ہوگیا ہے زبان کی لذّت کی خاطر ہم سب کچھ کھانے لگے ہیں، کھانے میں ہم نے حلال وحرام میں تمیز باقی نہیں رکھی،فقہ حنفی میں جھینگاکھانا جائزہے یا نہیں؟ یہاں جھینگے کے متعلق قرآن وحدیث و فقہ حنفی کی روشنی میں حلت وحرمت کو بیان کرنا ضروری ہے ۔

فقہاء احناف کے یہاں پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی کھانا جائزہے حدیث شریف میںہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اُحلت لنا میتتان ودمانِ فاما المیتتانِ: فالجراد والحوت، واما الدمان فالکبدُ والطحالُ (احمد ، ابن ماجہ ، دار قطی ) رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے لئے دو مردار (سے مراد )مچھلی اور ٹڈی اور دو خون(سے مراد) کلیجی اور تلی حلال کئے گئے۔اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ صرف دو مردار حلال ہیں ایک مچھلی اور دوسرا ٹڈی اسکے علاوہ مردار جائز نہیں یعنی بحری جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اسکے علاوہ دیگر جانورجو پانی میں رہتے ہیں وہ جائزنہیں جیسے :پانی کا کتاّ‘سانپ،مینڈک وغیرہ یہ سب حرام ہیں قرآن کریم میں ہے حرمت علیکم المیتۃ(قرآن) تم پر مردار حرام کیا گیا۔

ان میں سے صرف دومرے ہوئے جانوروں مچھلی اور ٹڈی کا استشناء کیا گیا ، حضرت عبد الرحمن بن عثمانؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک طبیب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دواء کا ذکر کیا اور کہا کہ اس دوا میں مینڈک ڈالا جاتاہے تو بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا اور جب اس حدیث مبارک سے مینڈک کی تحریم ثابت ہوگئی تو مچھلی کے سوا پانی کے باقی جانوروں کا بھی یہی حکم ہے۔ صاحب ِ ہدایہ فرماتے ہیں کہ مچھلی کے سوا باقی دریائی جانور خبیث ہیں، قرآن کریم میں ہے ویحرم علھیم الخبائث۔(قرآن ) نبی کریم ﷺ ان پر خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔

اس سے بالکل واضح ہے مچھلی کے سوا پانی کے تمام جانور خبیث ہیں، تمام ائمہ اربعہ کے پاس مچھلی کھانا حلال وجائزہے اسمیں کسی کا اختلاف نہیں البتہ امام مالک ؒ امام شافعیؒ امام احمد بن حنبل کے یہاں مچھلی کے علاوہ جھینگا وغیرہ کھانا جائز ہے ان کے اپنے اپنے دلائل ہیں وہ اپنی جگہ بر حق ہیں، لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں مچھلی کے علاوہ تمام آبی جانور حرام ہیں البتہ جھینگے کے بارے میں اکثر کتُبِ حنفیہ میں مکروہ تحریمی ذکر کیا گیاہے۔ احناف کے یہاں جھینگے کو مکروہ تحریمی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جھینگا مچھلی کی جنس سے ہے یا نہیں اسمیں اختلاف ہوگیا بعضوں نے کہا کہ مچھلی کی قسم سے ہے، بعضوں نے کہا کہ مچھلی کی قسم سے نہیںہے جیسے مینڈک ‘کیکڑا‘ سانپ و دیگر جانور ہیں جھینگا اسی طرح ہے اسی اختلاف کی بنیاد پر جھینگے کو فقہ حنفی میں مکروہ تحریمی کہا گیا جو حرام کے قریب ہے آج سائنس اتنی ترقی کرگئی ہے کہ ہر چیز پر تحقیق کررہی ہے، جدید سائنس کے مطابق جھینگے کو مچھلی کی جنس میں شمار نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ مچھلی کی جنس سے نہیں ہے تو واضح ہوگیا کہ گویا وہ دیگر سمندری جانوروں کے حکم میںہے۔ اسی لئے فقہ حنفی کی اتباع کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی دعوتوں میںنہ جھینگا پکائیں اور نہ ہی اسے کھائیں بلکہ اس سے اجتناب ضروری ہے ۔

آج عوام الناس میں یہ بات عام ہو گئی ہے کہ جھینگا کھا نے میں کیا حرج ہے؟ دوسرے ائمہ کے پاس تو جائز ہے اس طرح کہتے ہوئے زبان کے ذائقے کی خاطر خود بھی کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھانے کی ترغیب دیتے ہیں، اس سے بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے، قرآن مجیدنے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا: ولا تتبع الھویٰ: تم خواہشات کی اتباع نہ کرو۔ اس میں خواہشات کی پیروی ہوتی ہے اس سے بچنا نہایت ضروری ہے، اس ضمن میں فقہائے کرام نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ جب کسی چیز کے حلال و حرام ہونے میں اختلاف ہو جائے تو حرمت کو ترجیح دیتے ہوئے اس سے بچنا بہتر ہے، جو چیزیں حلال ہیں شریعت ان کے متعلق کہتی ہے کلوا واشربوا کھائو اور پیو۔ اور جو چیزیں حرام ہیں شریعت اسلامیہ نے ان سے سختی سے منع کیا ۔

فقہ حنفی کے ماننے والوں کیلئے ضروری ہے کہ جھینگا کھانے سے گریز کریں، اور دوسرے ہم مسلک بھائیوں کو اس کی طرف توجہ دلائیں، علاوہ ازیں حلال و حرام کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں بھی ہیں ان سے بھی بچنے کی تاکید کی گئی۔ اگر نصوص (قرآن وحدیث ) سے ان کی حرمت وحلت بالکل واضح نہ ہو تو درمیانی چیزیں جو ہوتی ہیں وہ مشتبہ کہلاتی ہیں اس سے بھی احتیاط کرنا بہت بڑی فضیلت کا باعث ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح بخاری میں اس طرح کا عنوان قائم کیا باب فضل من استبرا لدینہ اس شخص کی فضیلت کا بیان جو اپنے دین کو بچانے کیلئے مشتبہ چیزوں سے بھی بچتا ہے ۔

چنانچہ اس باب کے تحت جو حدیث شریف ذکر کی ہے وہ یہ ہے: یقول رسول ا للہ ﷺ: الحلال بیّن، والحرام بیّن، وبینھما مشتتبھات لا یعلمھن کثیر من الناس، فمن اتقی الشبھات استبرأ لدینہ وعرضہ ۔۔ الخ (بخاری) رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچا، اس نے اپنے دین کی اوراپنی عزت کی حفاظت کرلی اور جو شخص شبہات میں ملوث ہو گیا، وہ اس چروا ہے کی طرح ہے جو شاہی چراگاہ کے گرد اپنے مویشی چرائے، قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جائیں ، سنو! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے ، سنو! اس زمین میں اللہ کی مخصوص چراگاہ اس کے حرام کیے ہوئے کام ہیں، سنو! انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو تو پورا جسم درست ہوتا ہے، اور جب اس میںبگاڑ آجاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، سنو! وہ دل ہے۔ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ مشتہہ چیزوں سے بچتے رہے اسکا ایک مفہوم یہ بھی ہے ۔

جیسا کہ علامہ خطابی نے کہاہے کہ ہر وہ چیز جو کسی ایک وجہ سے حلال کے مشابہ ہو اور دوسری وجہ سے حرام کے مشابہ ہو ، وہ مشتبہ ہے۔ حلال بیّن وہ ہے جس کے متعلق یقین ہو کہ وہ اس کی چیز ہے اور حرام بیّن وہ چیز ہے جس کے متعلق یقین ہو کہ وہ اس کی چیز نہیں ہے اور مشتبہ چیز وہ ہے جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ وہ اس کی چیز ہے یا دوسرے کی چیز ہے، پھر تقویٰ یہ ہے کہ وہ اس سے اجتناب کرے۔ قال حسان بن ابی سنان: مارأیت شیئا أھون من الورع، دع مایریبک الیٰ ماً لا یریبک حسان بن ابی سنان نے کہا:

میںنے اس سے آسان تقویٰ کی کوئی قسم نہیں دیکھی کہ جس چیز میںتم کو شک ہو تو اس کو چھوڑ کر تم اس چیز کو اختیار کرو جس میں تم کو شک نہ ہو۔ الحوراء السعدی بیان کرتے ہیں: میںنے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما سے پوچھا: آپ کو رسول اللہ ﷺ کی کون سی حدیث یاد ہے، انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث یاد ہے: جس چیز میں تم کو شک ہو، اس کو چھوڑ کر اس کو اختیار کرو جس میں تم کو شک نہ ہو، کیونکہ صدق (سچائی) میںا طمانیت (اطمنان) ہے اور کذب (جھوٹ) میں شک ہے۔بعض حنفی مسلمان جھینگے کو بڑی شوق سے کھاتے ہیں جب ان کے سامنے اسکی حرمت کا ذکر کیا جائے تو وہ لا علمی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم کویہ مسئلہ معلوم نہیں تھا، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ حرام و حلال کے احکام سے وقفیت حاصل کرے ۔ واللہ اعلم بالثواب اللہ ہمیں اکل حلال عطا فرمائے اور حرام کھانے سے بچائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭