سحر کی حقیقت : جادو کا خوف دور کیجیے
شہر کے مختلف گلی کوچوں میں خود ساختہ عاملوں اور ڈھونگی باباؤں کے ہاں خواتین کثیر تعداد میں موجود ہوتی ہیں ، جہاں باباؤں سے تو ان خواتین کوکوئی فیض نہیں پہنچتا البتہ بابا لوگ خواتین کی سادہ لوحی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، لہٰذاان نام نہاد عاملوں سے دور رہنے ہی میں بھلائی ہے ۔ معوذتین وہ انعام الہیٰ ہے جس کی مدد سے ہر طرح کی مخلوق کے فتنے اور شر سے محفوظ رہنے کے لیے پناہ مانگی گئی ہے۔

حمیر ا خالد
لغت میں سحر ہر ایسے اثر کو کہتے ہیں جس کا سبب دکھائی نہ دیتا ہو۔ جیسے مقناطیس کی کشش جو نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہے اور لوہے سے جوڑ دیتی ہے۔عرف عام میں جادو ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جن میں جنات شیاطین کا عمل دخل ہو… مگر جادو کی اقسام بہت ہیں۔ جنات شیاطین کی مدد کے بغیر بھی قوت خیالیہ کو متاثر کرکے جس کو سائنس نے مسمریزم یا ٹیلی پیتھی جیسے نام دیے ہیں، دماغ پر وہ اثرات ڈالے جاتے ہیں کہ جنہیں آنکھ دیکھتی ہے اور جسم محسوس کرتا ہے مگر حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔ فرعون کے دربار میں جس سحر کا مظاہرہ کیا گیا تھاوہ اسی قسم کا تھا۔
’’انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔ ان کے سحر سے موسیٰ علیہ السلام کو خیال ہوا کہ یہ رسیوں کے سانپ ہیں جو دوڑرہے ہیں۔‘‘
جادو کی ایک قسم یہ بھی ہے جس میں شعبدہ باز اپنے اعضاکی چالاکی سے ایسے کام کرتے ہیں جو حقیقت میں نہیں ہوتے مگر دیکھنے والے کی نظر اس سے دھوکا کھا جاتی ہے۔ یہ شعبدہ باز الفاظ کی تکرار اور جسم کی حرکات کے مخصوص انداز سے خیالات و نظریات پر عارضی طور پر قابو حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ بھی محض نظر فریبی ہے کیونکہ اس سے بھی چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ آدمی نفسیاتی مریض بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو بیمار تصور کرنے لگتا ہے۔
ایک زمانے میں بابل شہر میں جادو کا بہت چرچا تھا، بالخصوص یہودی قوم میں جادو ٹونے‘ گنڈے کرنے کا رواج عام تھا۔ یہ لوگ انبیائے کرام کے معجزات اور جادو کی کرامات کو خلط ملط کرنے لگے تھے۔ بعض لوگ تو جادو گروں کے جادو کے عجیب و غریب اثرات دیکھ کر اسے نیک کام سمجھنے لگے تھے بلکہ جادوگروں کو مقدس اور جادو کو فن مان کر سیکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ لہٰذا بابل میں جادوگری کا فن انتہائی عروج پر تھا۔ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں جادوگر موجود تھے۔ اس فن کی بنیاد پر انہیں معاشرے میں اونچے مناصب اور برتری حاصل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس اشتباہ اور غلطی کو دور کرنے کے لیے بابل میں دو فرشتے ہاروت اور ماروت بھیجے ۔ یہ لوگوں کو سحر کی حقیقت بتاتے اور اس کے علم سے آگاہی دیتے تاکہ اشتباہ بھی جاتا رہے اور لوگ جادو کرنے اور جادو گری کے فریب سے بچ سکیں ۔ لیکن جو قوم بے راہ روی اور بے عملی کی راہ پر چل نکلے، محنت سے جی چرائے اور منتر جیسی چیزوں سے مسائل حل کرنا چاہے تو سحر اور عملیات کرنے والوں کی خوب چاندی ہوجاتی ہے۔ وہ تعویذوں کے طلسماتی اثرات سے لوگوں کو گرویدہ بنالیتے ہیںاور فریب کے جال میں پھانس لیتے ہیں، جس کے بعد متاثرین کو وہی کچھ محسوس ہوتا جو وہ محسوس کروانا چاہتے، اور وہی کچھ دکھائی دیتا جو وہ ان کو دکھانا چاہتے ۔ یہ جادو گر اپنے جادو کی نسبت حضرف سلیمان علیہ السلام سے کیا کرتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جنوں اور ہواؤں پر جو غیر معمولی اقتدار حاصل تھا وہ سب علم سحر کی بنا پر تھااور یہ علم اصل میں انہی جنوں کے ذریعہ انہیں حاصل ہوا تھا۔ان کی دانست میں جادو وہ مقدس قوت ہے جس کے مدد سے مخلوق کو حسب خواہش تسخیرکیا جاسکتا ہے۔
چنانچہ جس طرح لوط علیہ السلام کی قوم میںتنبیہ کے لیے خوب صورت لڑکوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے آئے تھے اسی طرح یہود کی آزمائش اور ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے دو فرشتے اس علم کے ساتھ آئے ۔ وہ خبردار کرتے جاتے تھے کہ یہ تمہاراامتحان ہے، اس میں تمہارے لیے خسارہ ہے۔وہ لوگوں کو اس کے نتائج بد سے بھی پوری طرح آگاہ کردیا کرتے کہ دیکھو یہ کلمات بچنے کے لائق ہیں، ان سے احتیاط کرتا…د یکھویہ آزمائش ہے کہ ہمارے بتانے سے اپنا دین خراب ہونے سے کون بچاتا ہے اور کون مطلع ہونے کے باوجود اس شر کو اختیار کرتا ہے یا عمل میں لاتا ہے۔ وہ بتاتے کہ یہ کفر ہے خواہ عملی ہو یا اعتقادی۔ اس انتباہ کے باوجود لوگ ان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ یہ فن اس لیے جاننا چاہتے تھے کہ اس کی خرابی سے خود کو اور دوسروں کو بچا سکیں ، لیکن اصل میں انہوں نے اس کو ناجائز مقاصد میں استعمال کرنا شروع کردیا، حالانکہ ناجائز مقصد یا کسی نقصان پہنچانے کے لیے قرآن و حدیث کے کلمات سے بھی کام لینا جائز نہیں خواہ وہ وظیفہ اسمائے الہٰیہ ہو یا قرآنی آیات کا تعویذ۔
قرآن وحدیث نے جس سحر کو کفر کہا ہے وہ ایسا عمل ہے جس میں کفر و شرک اور فسق و فجور کرکے شیاطین جنات کو خوش کیا گیا ہو اور ان سے مدد لی گئی ہو ۔ جس طرح طہارت ، پاکی، خوشبو اور ذکر اللہ سے فرشتوں کی قربت حاصل ہوتی ہے اسی طرح شیاطین جنات کی مدد لینے کے لیے ان تمام کاموں کواختیار کرنا ہوتا ہے جو گندے‘ ناپاک ‘ نجس‘ بدبودار اور حرام ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ساحر کو اللہ کے سوا دوسروںکی پرستش کرکے ان شیاطین کو راضی کرنا ہوتا ہے۔ عموماًجادو کرنے والے نجوم کی کواکب اور آگ کی پرستش کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک علم نجوم اور علم کواکب نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسی ذریعے سے قسمت یا تقدیر پر بھی اثر انداز ہوا جاسکتا ہے، غیب کی حقیقت کھولی جاسکتی ہے اور مستقبل کے حالات کی خبردی جاسکتی ہے۔
تعویذگنڈے جو عامل فقیرانہ بھیس میں کیا کرتے ہیںاکثر اوقات وہ انہی شیاطین جنات سے مدد لیتے ہیں، اور ایساکرنے کے لیے وہ شیاطین جنات کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا کرتے ہیں خواہ وہ قطعی حرام ہی کیوں نہ ہو… جیسے کسی کا ناحق بہانا ‘ جنابت یا نجاست کی حالت میں رہنا ‘ طہارت اور پاکی سے اجتناب کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جادو ٹونے کے اثرات ان لوگوں پر زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو اللہ کے ذکر اور عمل صالح سے غافل رہتے ہیں، نجاست اور ناپاکی سے بچاؤنہیں کرتے ،خبیث کاموں کے عادی ہیں۔ عورتوں کے لیے ایام حیض میں ان اثرات بد میں آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
قرآن کہتا ہے ’’میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کن لوگوں پر شیاطین اترتے ہیں، ہر بہتان باندھنے والے گناہ گارپر۔‘‘
مشیت الٰہی کے بغیر سحر بے اثر ہے۔
اسلامی فکر کا قاعدہ اور کلیہ یہ ہے کہ اللہ کے حکم سے اسباب میں اثر پیدا ہوتا ہے اور اللہ جب چاہے چیزوں کی خاِصیت بدل دے۔ آگ اللہ کے حکم سے جلانے کے بجائے ٹھنڈی ہوسکتی ہے ‘ پانی پیاس بجھانے کے بجائے طوق پیدا کرسکتا ہے۔ خدا کے حکم سے ہر چیز اپنی خاصیت ترک کرسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ اس بات پر قادر ہے کہ جادو کی اس خاصیت سے اپنی خاص حکمت کے تحت نقصان کا اذن نہ دے۔
’’اللہ کے اذن کے بغیر وہ ان (عملیات ) سے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔‘‘
گویا جادو کا مؤثر ہونا اللہ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
روایات کی رو سے آپؐ پر جو جادو کیا گیا تھا اُس کے اثر سے آپؐ بیمار ہوگئے تھے اور پھر اس اثر کو دور کرنے کے لیے جبرائیل علیہ السلام نے آپؐ کو معوذتین پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔
مولانا مودودی ؒکہتے ہیں کہ جادو دراصل ایک نفسیاتی اثر ہے جو نفس سے گزر کر جسم کو بھی اسی طرح متاثر کرسکتا ہے جس طرح جسمانی اثرات جسم سے گزر کر نفس کو متاثر کرتے ہیں۔ خوف ایک نفسیاتی چیز ہے جس کا اثر جسم پر یہ ہوتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دراصل جادو سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی مگر انسان کا نفس اوراس کے حواس اس سے متاثر ہوکر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ حقیقت تبدیل ہوگئی ہے۔
کیا جھاڑ پھونک سے علاج کریں؟
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت کے وہ لوگ بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے جو نہ داغنے کا علاج کرتے ہیں، نہ جھاڑ پھونک کراتے ہیں، نہ فال لیتے ہیں، بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔‘‘ (مسلم)
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدامیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرمادیا تھا لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ اس میں شرک نہ ہو۔ اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے۔ کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز تو نہیں ہے اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے بلکہ اللہ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنادے گا۔
افسوس! شہر کے مختلف گلی کوچوں میں خود ساختہ عاملوں اور ڈھونگی باباؤں کے ہاں خواتین کثیر تعداد میں موجود ہوتی ہیں ، جہاں باباؤں سے تو ان خواتین کوکوئی فیض نہیں پہنچتا البتہ بابا لوگ خواتین کی سادہ لوحی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، لہٰذاان نام نہاد عاملوں سے دور رہنے ہی میں بھلائی ہے ۔ معوذتین وہ انعام الہیٰ ہے جس کی مدد سے ہر طرح کی مخلوق کے فتنے اور شر سے محفوظ رہنے کے لیے پناہ مانگی گئی ہے۔ راہ راست کی پیروی میں سب سے زیادہ یہی شیاطین جن وانس رکاوٹ بنتے ہیں۔ لہٰذا بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ’’اے ابوذر! شیاطین انس اور شاطین جن کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘
٭٭٭