فلسطین بابرکت سرزمین
ارض فلسطین کی اہمیت وفضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ اللہ سبحانہ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پراسکے مقدس اوربابرکت ہونے کا ذکرفرمایاہے۔ ’’اے میری قوم اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤجس کو اللہ تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہےاورپیٹھ پھیرکرواپس نہ جاؤورنہ نقصان میں پڑجاؤ گے‘‘ (المائدۃ؍۲۱)

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786
ارض فلسطین کی اہمیت وفضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ اللہ سبحانہ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پراسکے مقدس اوربابرکت ہونے کا ذکرفرمایاہے۔ ’’اے میری قوم اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤجس کو اللہ تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہےاورپیٹھ پھیرکرواپس نہ جاؤورنہ نقصان میں پڑجاؤ گے‘‘ (المائدۃ؍۲۱)اس آیت پاک میں اللہ سبحانہ نے ارض فلسطین کوارضِ مقدس فرمایاہے، بعض مفسرین نے اس سے بیت المقدس اوربعضوں نے شہرقدس اورایلیا ،بعضوں نے شہر اریحا مراد لیا ہے جونہر اردن اوربیت المقدس کے درمیان قدیم آباد شہر تھا ،تحقیق یہ ہے کہ وہ آج بھی آبادہے ۔ بعضوں کے نزدیک اس سے دمشق ، فلسطین،اوربعضوں کے نزدیک اردن مراد ہے، حضرت کعب احباررضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق تمام ارض شام اللہ سبحانہ کی رحمتوں کا خزانہ ہے،اس سرزمین کو مقدس کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کو انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب لبنان کی پہاڑی پرچڑھے تو اللہ سبحانہ نے آپ علیہ السلام سے فرمایا’’اے ابراہیم یہاں سے نظرڈالوجہاں تک آپ کی نظر پہنچے گی اس کو ارض مقدس بنادیں گے‘‘الغرض ملک شام رحمتوں کی سرزمین ہے۔ اس رکوع کی آیات ۲۰ تا ۲۶ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک ورق الٹایا گیا ہے کہ قوم عمالقہ جوملک شام میں قابض ومتصرف تھی اس کے رعب و داب، طاقت و قوت ، شان وشوکت کے آگے بنی اسرائیل نےاپنی پست ہمتی کا اظہار کرتے ہوئے کیسے اپنے حوصلےکھودیئے تھے اور کس طرح انہوں نے اللہ سبحانہ کی راہ میں جہاد سے انکارکردیا تھا ،باوجود یہ کہ ملک شام کی سرسبزی و شادابی اس کی زرخیزی لائق دید تھی،ٹھنڈے پانی کے ابلتے چشمے ،سرسبز و شاداب درخت و کھیتیاں اور درختوں پر لدے پھل پھلار اور کھیتیوں کی پربہار رونقیں دلوں کو موہ لینے والی تھیں،بنی اسرائیل کواپنی جان اور مال اس قدر پیارے ہوگئے تھے کہ انہوں نے اللہ سبحانہ کے حکم جہاد کو پست پشت ڈال دیا اور مادی اعتبار سے اس کی ظاہری رونق و بہار ان کو اپنی طرف مائل نہ کرسکی ۔
ظاہر ہے اللہ سبحانہ کے حکم کی نافرمانی اور اس معرکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے سے انکار کی وجہ وہ قوم دھتکاردی گئی تھی نتیجہ یہ ہوا بطور سزا چالیس (۴۰) برس تک اس کو جنگلوں بیابانوں کی خاک چھاننی پڑی ،اللہ سبحانہ کی سنت ہے کہ جو قوم بزدل ہوتی ہے اور آزادیِ ٔ فکر کے بجائے جان کے خوف سے غلامی گوارا کرلیتی ہے وہ صفحہ ہستی سے مٹادیئے جانے کی مستحق ہوجاتی ہے،اللہ سبحانہ کی سنت یہی ہے کہ ’’جب کوئی قوم اس کے احکام سے روگردانی کرنے لگتی ہے تو پھر اللہ سبحانہ ایسی قوم کو پیدا فرماتے ہیں جو ان جیسی پست ہمت نہیں ہوتی ‘‘(سورہ محمد ؍۳۸)،اس لئے تاریخ انسانیت میں ایک ایسا دور ضرور آتا ہے جس میں ایمانی کیفیات سے سرشار ،حریتِ فکرکے مالک غلامی کی زنجیروں کو اپنی ہمت و حوصلہ سے نکال پھینکنے ، آزادی کی فضاء میں سانس لینے کی تمنا وتڑپ رکھنے والےاللہ سبحانہ کی خوشنودی کیلئےاس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔
اللہ سبحانہ پرکامل توکل اور اس کی رحمتوں پر نظر رکھتے ہوئے دشمنان اسلام سے بلا خوف و خطر نبردآما ہوجاتے ہیں اور اللہ سبحانہ کی مدد و نصرت بھی ان کے شامل حال ہوجاتی ہے،ایسے بلند حوصلہ مجاہدین اللہ سبحانہ کے فضل سے میدان کارزار میں ثابت قدم رہتے ہوئے فتح و کامرانی حاصل کرلیتےہیںدشمنان اسلام کی ظاہری طاقت و قوت ان کے حوصلے پست نہیں کرسکتی ،ان کی صفت ولایخافون لومۃ لائم ہوتی ہے ، اللہ سبحانہ ان صفات عالیہ سے ان ہی کو متصف فرماتا ہے جن پر اس کا خاص فضل و کرم ہوتاہے چنانچہ ایسا ہی ہوا ایک ایسی نسل تیار ہوگئی جس نے شام پر حملہ کرکے کامیابی حاصل کرلی ، اللہ سبحانہ نے ان جیالوں کو شام میں حکومت و سلطنت اور شان و شوکت عطا فرمائی اور اس کی زرخیزیوں اور شادابیوں سےان کو آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع عطا فرمایا،ارشاد باری ہے ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کے لئے اچھا ٹھکانہ دیا پاکیزہ رزق عطا کیا (یونس: ۹۳) اس آیت پاک میں ’’مبوأ صدق‘‘سے مراد مصر و شام کے شہر ہیں جو بیت المقدس کے اطراف واکناف میں واقع ہیں،حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ سبحانہ نے شام اوربیت المقدس میں بنی اسرائیل کورہنے کا بہتر و عمدہ ٹھکانہ عطا فرمایا (روح المعانی: ۶؍۱۷۷)
بنی اسرائیل پر اللہ سبحانہ کے انگنت احسانات ہیں ۔ان کے سب سے بڑے دشمن فرعون اور اس کے متبعین کو فنا کی گھاٹ اتار کران کو آزادی کی نعمت نصیب فرمائی اور فرعون کے ظلم و جور سے نجات بخشی ،اس طرح بنی اسرائیل پر اس احسان کے ساتھ اور کئی احسانات فرمائے، ملک شام پر تمکن بخشا وہاں کی سرسبزی و شادابی اور تازہ تازہ سبزیوں ،لذیذ میووںسے ان کی پاکیزہ روزی کا انتظام فرمایا ۔لیکن انہوں نے اللہ سبحانہ کی نعمتوں کی ناشکری کی ، احکامات الہی سے روگردانی کو اپنی وطیرہ بنالیا یہاں تک کہ پیغمبر آخرالزماں خاتم النبیین ﷺ کونبی ماننے سے بھی انکار کردیا ، احکام الہی کی صریح مخالفت کرکے اپنی صفوں میں اختلاف و انتشارکی دیواریں کھڑی کرلیں اور اپنے آپ کو کئی تکڑوں میں تقسیم کرلیا ،ان کی قوم میں چند ہی ایسے تھے جو پیغام توحید کو قبول کرکے تواضع و عاجزی ،انکساری اختیار کی اور بندگی کے تقاضوں کی تکمیل کی ۔
اس واقعہ میں یہ پیغام دینا مقصودہے کہ آزادی کی نعمت کا تاج انہیں کے سروں پر رکھا جاتا ہے جو راہ حق میں جان و مال سب کچھ قربان کرلینے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں،ایسے ہی جیالوں کو تخت و تاج عطا ہوتے ہیں دنیا جہاں کی حکومت و سلطنت ان کے حصہ میں آتی ہے ظاہر ہے آج بھی اگر مسلمان اپنی حرارت ایمانی وجذبۂ شوق شہادت سے سرشارارض فلسطین میں دشمن سے مقابلہ کرکے ان پر فتح حاصل کرلیں گے تب اس سرزمین کے روحانی و مادی فوائد ہر دو کے مالک بنیں گے۔ ارض شام کے مقدس ہونے کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں بھی کیا گیا ہے۔
وہ (اللہ سبحانہ )جواپنے بندہ کوراتوں رات مسجدحرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے اطراف ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں (آپ ﷺ کو) اپنی قدرت کی بعض نشانیاں دکھائیں، یقینا اللہ سبحانہ خوب سننے والے اوردیکھنے والے ہیں (بنی اسرائیل؍۱) اس آیت پاک میں آپ ﷺ کے سفر’’اسراء‘‘ کا ذکرہے جومسجدحرام سے مسجداقصی تک حالت بیداری میں وہ بھی چند لمحات میں ہوا،مسجداقصی میں تمام انبیاء ومرسلین عظام علیہم السلام کی امامت پھرمسجداقصی سے آسمانوں کی سیر،سدرۃ المنتہی پھر بارگاہ قدس تک رسائی کو معراج کہاجاتاہے، اس سارے سفر میں عجائبات قدرت کے عینی مشاہدات کا تذکرہ بنی اسرائیل کی اس آیت اورسورہ نجم کی ابتدائی آیات میں بیان ہوا ہے ’’الذی بارکنا حولہ‘‘ فرماکراللہ سبحانہ نے ارض شام کے بابرکت ہونے کاذکرفرمایاہے،چونکہ یہ سرزمین قدرتی نہروں، سرسبزی وشادابی نیزانبیاء کرام علیہم السلام کے مسکن و مدفن ہونے کی وجہ خصوصی امتیازرکھتی ہے اسلئے بھی اسکو بابرکت قرار دیا گیاہے۔
حدیث پاک میں واردہے’’حق سبحانہ وتعالی نے عرش سے نہرفرات تک بابرکت بنایا ہے اوراس میں ارض فلسطین کو مزید تقدس حاصل ہے‘‘ (روح المعانی ۸؍۱۳) سیدنا محمد رسول اللہ نے فرمایا اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادہے اے ملک شام توتمام شہروں میں میرا چنندہ اورمنتخب خطۂ ارض ہے میں اپنے چنندہ ومنتخب بندوں کوتیری طرف پہنچاؤنگا ،ایک اورحدیث پاک میں وارد ہے دجال زمین کا چکرلگائے گالیکن اللہ سبحانہ مسجدنبوی ،مسجدحرام ،مسجداقصی اورمسجدطورتک اس کورسائی نہیں دیں گے۔(حوالہ سابق )ایک اور جگہ اشاد باری ہے ۔
’’ہم ابراہیم اور لوط( علیہماالسلام) کواس سرزمین کی طرف بچاکرلے گئے جس کو ہم نے جہاں والوں کیلئے بابرکت بنایاہے‘‘ (الانبیاء؍۷۱) اس سے مراد ارض شام ہے۔ والمراد بہذہ الارض ارض الشام (روح المعانی۹؍۶۸)چونکہ حضرت ابراہیم ولوط علیہما السلام کی ہجرت عراق سے شام کی طرف ہوئی تھی۔ (تفسیر طبری ۱۶؍۳۱۰) فارق صلوات اللّٰہ علیہ قومہ ودینہم ،وہاجر الی الشام۔ اس لئے اس میں اسی سر زمین کا ذکرکیا گیا ہے۔ اس سرزمین کی برکتوں کا ذکر اس آیت پاک میں بھی ہے۔ ہم نے تیزوتندہواکوسلیمان (علیہ السلام)کے تابع کردیا جو ان کے حکم سےاس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکتیں رکھی تھیں (الانبیاء؍۸۱) یہاں ’’بارکنا فیہا‘‘ سے مرادارض مقدس فلسطین ہے۔
سورہ تین میں بھی اس کا ذکر ہے ،قسم ہے انجیر کی اورزیتون کی اورطورسینین کی،اوراس امن والے شہر کی، (التین؍۱) یہ وہی کوہ طورہے جہاں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو ہمکلامی کا شرف عطا فرمایا تھا’’بلدالامین ‘‘سے ارض شام بھی مراد ہے اورارض مکہ بھی لیکن صاحب بحر نے لکھا ہے کہ اس سے ارض شام کا پہاڑ مراد ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے (روح المعانی۱۵؍۳۹۳)بعض مفسرین کی رائے ہے کہ ’’اس میں دراصل تین مقامات کی قسم ہے،جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ مقدس وبابرکت ہے جہاں جلیل القدرصاحبان شریعت پیغمبران کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے،انجیروزیتون کے علاقہ سے مرادبیت المقدس ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام پیغمبر بناکر بھیجے گئے،طورسینا وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو نبوت عطاہوئی اورشہر مکہ وہ مبارک شہر ہے جہاں سیدالرسل حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت مبارکہ ہوئی۔ (ابن کثیر)
ارض فلسطین جن جیالوں کو اللہ سبحانہ نے عطا فرمائی تھی ان کو دنیا والے کمزور سمجھتےتھےلیکن اللہ سبحانہ نے اس آیت پاک میں انہیں کو اس بابرکت زمین کا مالک بنانے کا ذکر فرمایا ہے ۔ہم نے ان لوگوں کوجوکمزورسمجھے جاتے ہیں اس سرزمین کے مشارق ومغارب کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے (الاعراف: ۱۳۷) یہاں جس سرزمین کے مشارق ومغارب کے مالک بنا نے کا تذکرہ ہے اس سے مرادارض مقدس فلسطین ہے ’’التی بارکنا فیہا‘‘سے اسکی اہم خصوصیت اسکا بابرکت ہونے کا ذکر فرمایاگیا ہے۔شام کے سارے علاقے میں اللہ سبحانہ نے برکتیں رکھی ہیں،اس سے روحانی ومادی دونوں طرح کی برکتیں مرادہیں، روحانی اعتبارسے برکت یہ ہے کہ بیت المقدس میں نماز کرنے سے کئی گنازیادہ اجر وثواب حاصل ہوتا ہے، یہ مقدس سرزمین انبیاء کرام علیہم السلام کی جائے عبادت اوران کا قبلہ رہی ہے، ظاہری اعتبارسے بھی اس کی سرسبزی وشادابی، اشجار و انہر سے اسکی دلکشی ودلفریبی بڑی خوش منظرہے ۔
اوراس کے ساکنین کیلئے بھی یہاں خوشحالی اور فارغ البالی کا سامان رہا ہے۔ (روح المعانی ۸؍۱۳) اس آیت پاک میں ’’کانوا یستضعفون‘‘ کا صیغۂ مجہول سے اس بات کی طرف اشارہ ہے وہ قوم حقیقۃ کمزور اور ضعیف نہیں تھی بلکہ ان کے ظاہر احوال کی وجہ ان کو کمزور گردان لیا گیا تھا ۔ اس ارشادباری میں یہ رمزبھی پوشیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ جس قوم کی مددونصرت فرمائے بظاہر اس کو کمزورسمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ کمزورنہیں بلکہ بڑی طاقتوراورشان وشوکت کی مالک ہوتی ہے۔
’’اَوْرَثناَ‘‘ کے ارشادپاک سے بھی ان کی خداترسی و مقبولیت کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ نے قوم فرعون اورقوم عمالقہ کے ہلاک ہوجانے کے بعد بنی اسرائیل کو اس مقدس سرزمین پرغلبہ عطا فرمایا اوران کی حکومت وسلطنت قائم ہوئی،اس دنیا میں اللہ سبحانہ کا حکم اوراس کی حکیمانہ تدابیرہمیشہ کارفرما ہیں،بنی اسرائیل کوجب فرعون کے ظلم وجوراوراسکی غلامی سے اللہ سبحانہ نے نجات دی اوران کو سطوت وسلطنت،اقتداروتمکن بخشاتوپھر ان کو چاہئے تھا کہ اس کے شکرگزاربندے بن کرزندگی گزارتے لیکن انہوں نے نافرمانی ، ناسپاسی وناشکری کو اپنا وطیرہ بنالیاجس کی پاداش میں اللہ سبحانہ نے پھرسے ظالم و جابر ،درشت وسنگدل دشمن کوان پرمسلط کردیا، تباہی وبربادی پھر سے ان کامقدربن گئی اورشہرمقدس پھر سے ویران ہوگیا اس میںمسلمانوں کیلئے ایک پیغام ہے کہ اگر ان کو اقتداروتمکن بخشا جائے توبنی اسرائیل کی سرتابی کا انجام اپنی نگاہوں میں رکھیں،اللہ سبحانہ کے احکامات اوراس کے منشا کو ہرگز فراموش نہ کریں ،دین وایمان کے تقاضوں کوپوارکرنے میں ہرگز غفلت نہ برتیں، زندگی کے تمام شعبوں میں خواہ وہ اقتدار و تمکن ہو، سلطنت و حکومت ہو،معاش و معاشرت ہو اسلامی احکام کے نفاذ سے اللہ سبحانہ کی مدد و نصرت شامل حال ہوتی ہے جس سے غلامی کی زنجیریں کٹ سکتی ہیں ،شب دیجورروشن صبح میں تبدیل ہوسکتی ہے،مسلمانوں کو مایوس نہیں ہونا چاہئے چونکہ اللہ سبحانہ کی رحمت سے مایوس ہونا کفران نعمت ہے۔اس لئے شارحین نے اس سے یہ نکتہ بھی اخذ کیا ہے کہ مسلمان آج بھی اس بابرکت سرزمین کے ساتھ تمام کرئہ ارض کی مالک بن سکتے ہیںبشرطیکہ وہ دین حق کی نصرت کا فرض پوراکرکے اللہ سبحانہ کی مددونصرت کا اپنے آپ کومستحق بنائیں،ارشاد باری ہے۔تم اللہ سبحانہ (کے دین)کی مدد کروگے تو وہ ضرور تمہاری مددکریگا اورتم کو ثابت قدم رکھے گا۔
ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم (سورہ محمد: ۷) چونکہ عزت وذلت کا دینا اللہ سبحانہ کے دست قدرت میں ہے،جسے چاہے معززومکرم بنائے اورجسے چاہے ذلیل ورسوا کرے۔ وتعز من تشاء وتذل من تشاء (آل عمران: ۲۶) یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عزت توصرف اللہ سبحانہ کیلئے اوراسکے رسول (ﷺ) اورایمان والوں کیلئے مختص ہے یعنی حقیقی عزت وشوکت صرف اورصرف اللہ سبحانہ کیلئے ہےوہی اس کا سزاوار ہے پھروہ جسے چاہے عزت وشوکت اورغلبہ عطافرمادے، مَن کَانَ یُرِیدُ العِزَّۃَ فَلِلّٰہِ العِزَّۃُ جَمِیعًا (فاطر ؍۱۰)ظاہر ہے جو کوئی عزت چاہے وہ اس کو عزت کے سرچشمہ ہی سے پاسکتا ہے اور جو عزت اس سرچشمہ سے ملے گی وہ حقیقی عزت ہو گی۔پھر دنیا و آخرت میں کبھی ذلت کا سامنا نہیں ہو گا۔ وَلِلَّہ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنافقون ؍ ۸) ان آیات پاک میں قوموں کے عروج و زوال کی داستان بیان کی گئی ہے ظاہرہے دنیا جہاں کی نعمتیں اور اخروی سرفرازیاں انہیں کے حصہ میں آتی ہیں جو اللہ سبحانہ سے ڈرتے ہیں کسی اور سے نہیں ،ویخشونہ ولا یخشون احدا لا اللہ ۔(ا حزاب ؍۳۹)اللہ سبحانہ سے ڈرنے والے ہی ظالم دشمن طاقتوں سے نہیں گھبراتےبلکہ ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے ہیں اور اپنے ذوق یقین سے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد فضاء میں سانس لیتے ہیں اللہ سبحانہ کی بندگی کا عہد ان کو ہر طرح کے خوف سے بے نیاز کردیتا ہے ورنہ غلامی کی زندگی تو گویا اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان کرنا ہے ۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہوذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اللہ سبحانہ کے بے پایا ںفضل و کرم سے حضرات انبیاء کرام ومرسلین عظام علیہم السلام اوران پرایمان لانے والے عزت وسربلندی سرخروئی وسرفرازی کےمستحق بن جاتے ہیں ، ارشادباری ہے’’ہم نے زبورمیں پندونصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے (الانبیاء:۱۰۶) یہاں ’’ارض ‘‘سے مرادبعضوں نے جنت اوربعضوں نے ارض کفارلی ہے یعنی اللہ سبحانہ کے نیک ،صالح اورخداترس بندے ہی زمین کے مالک ہوں گے یعنی حکومت وسلطنت اللہ سبحانہ انہیں کونصیب فرمائیں گے۔
اس ارشادباری سے مزید وضاحت ہوتی ہے کہ ’’تمہیں سربلنداورغالب رہوگے اگرتم ایمان والے بن جاؤ‘‘ (آل عمران ؍۱۳۹)الغرض اس زمین پرغلبہ وکامرانی پانے کیلئے ایمان اورایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی شرط ہے،اس کے ساتھ دفاعی نظام کو مضبوط کرنا اور دشمنان اسلام حملہ آور ہو ںتو ان سے مقابلہ کرنا ایمان کا تقاضہ ہے ۔ اسی میں امت مسلمہ کی سطوت و سربلندی کا راز مضمر ہے ۔ فلسطینی مجاہدین پر اللہ سبحانہ اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرمائے اور اپنی قدرت کاملہ سے ان کی ایسی غیبی مدد فرمائے کہ ان کو ظالم و قابض اسرائیلیوںپر غلبہ حاصل ہو،فلسطینی اپنے ایمانی جوش، حریت فکر کی ایک لازوال تاریخ رقم کررہے ہیں ،ان شاء اللہ ضرور وہ اس ارض مقدس کے محافظ و امین بنیں گے اور اہل ایمان اس مبارک و مقدس سرزمین کی مادی و روحانی برکتوں سے مالا مال رہیں گے ۔
٭٭٭