سوشیل میڈیاشمالی بھارت

مسلمان مرد پہلی بیوی کو ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرسکتا

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف دوسری شادی کرنے والا مسلمان مرد پہلی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرنے کے لیے کسی بھی سیول عدالت سے احکام حاصل نہیں کرسکتا۔

پریاگ راج: الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف دوسری شادی کرنے والا مسلمان مرد پہلی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرنے کے لیے کسی بھی سیول عدالت سے احکام حاصل نہیں کرسکتا۔

جسٹس سوریہ پرکاش کیسروانی اور جسٹس راجندر کمار پر مشتمل بنچ نے یہ بات کہی۔ ایک مسلمان مرد نے عدالت میں اپیل داخل کی تھی اور ایک فیملی کورٹ کے احکام کو چیلنج کیا تھا، جن کے ذریعہ ازدواجی حقوق کی بحالی کے لیے اس کے معاملہ کو مسترد کردیا گیا تھا۔

بنچ نے درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقدس قرآن میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص بشرطِ انصاف 4 خواتین سے شادی کرسکتا ہے لیکن اگر اسے ڈر ہو کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے گا تو اسے صرف ایک شادی پر اکتفا کرنا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ اگر کوئی مسلمان مرد اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو پالنے کے قابل نہیں تو قرآن کے احکام کے مطابق وہ دوسری عورت سے شادی نہیں کرسکتا۔

عدالت نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ مسلم شوہر کو پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری عورت سے شادی کرنے کا قانونی حق حاصل ہے لیکن اگر وہ ایسا کرتا ہے اور پھر پہلی بیوی کو اس کی مرضی کے خلاف اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور کرنے کے لیے سیول عدالت کی مدد مانگتا ہے تو ایسی صورت میں مذکورہ خاتون کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس پر اعتراض کرے کہ آیا عدالت اسے ایسے شوہر کے ساتھ ہم بستری کے لیے مجبور کرسکتی ہے۔

بنچ نے یہ بھی کہا کہ جب درخواست گزار نے اپنی پہلی بیوی کو لاعلم رکھتے ہوئے دوسری شادی کرلی ہے تو پھر درخواست گزار کا یہ رویہ پہلی بیوی کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ ان حالات میں اگر پہلی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو پھر اسے ازدواجی حقوق کی بحالی کے لیے شوہر کے ساتھ جانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

اگر ازدواجی حقوق کی بحالی کے لیے شوہر کے استدلال کو قبول کرتے ہوئے احکام جاری کیے جاتے ہیں تو پھر بیوی کے نقطہئ نظر سے یہ اُس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، جن کی ضمانت دستورِ ہند کی دفعہ 21 میں دی گئی ہے۔