ملک میں بڑھتی منافرت اور اشتعال انگیزی
ڈاکٹر سیّد احمد قادری
اس امر سے انکارنہیں کیاجا سکتا ہے کہ ملک میں بڑھتی منافرت اور اشتعال انگیزی سے ملک کا بڑا طبقہ جو بلا شبہ سیکولر ہے، وہ بہت پریشان ہے کہ ایسی نفرت، تشدد اور اشتعال انگیزی کے باعث جہاں دنیا بھر میں ملک کا امیج خراب ہو رہا ہے وہیں دوسری جانب ملک کی سا لمیت کو بڑا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں راہول گاندھی بھارت جوڑو یاترا میں یہ پیغام دینے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ یہ بھارت جوڑو یاترا دراصل بی جے پی کی نفرت اور تشدد کے خلاف ہے اور ملک کو متحد کرنا ہے۔ راہول گاندھی کے ان چند جملوں سے بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ چند دنوں قبل ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے تلنگانہ میں اپنی ایک تقریر کے دوران بڑے دکھی من سے یہ بات کہی ہے کہ انھیں روزانہ کیلو کے حساب سے گالیاں دی جاتی ہیں۔ ہر باشعور شخص اس بات کی مذمت کرے گا کہ ملک کے وزیر اعظم کا عہدہ بہت ہی باوقار ہوتا ہے جس کی تعظیم لازمی ہے،لیکن پھر ایک سوال اٹھتا ہے کہ آپ کے وزراء اور پارٹی کارکنان جس طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں، وہ کیا ہے؟حزب مخالف کو، اقلیتوں کو، حکومت پر سوال کرنے یا تنقید کرنے والوں کو جب بہت ہی نچلے سطح پر اتر کر گالیاں دی جاتی ہیں، انہیں اشتعال دلانے کی کوششیں ہوتی ہیں، تب آپ خاموش کیوں رہتے ہیں۔؟گالیاں، نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر یا بیانات کا کوئی بھی مرتکب ہو، اسے سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اس لیے کہ ایسی نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات ملک کے اندر کی یکجہتی، ہم آہنگی، صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کی نفی ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ ملک کی سا لمیت کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ایسے نہ جانے کتنے نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی میں رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج، پرگیا ٹھاکر، پرویش ورما، انوراگ ٹھاکر، گری راج سنگھ، اسمبلی رکن نند کشور گوجر، سنگت سوم، سابق وزیر نرنجن جیوتی، سوامی رتن دیو مشرا، سریش چوانکے وغیرہ نے دیے ہیں جو فرقہ وارانہ تشدد کے سبب بنے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ (NCRB) کی ایک رپورٹ کے مطابق2014 ء میں جہاں نفرت اور اشتعال تقاریر کے 323 کیسس سامنے آئے تھے، وہیں 2020 ء میں یہ تعداد بڑھ کر 1804ء تک پہنچ گئی ہے۔ اسی ماہ سپریم کورٹ میں ایک عرضی پیش کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2014 ء کے بعد نفرت انگیز تقاریر میں تقریباً پانچ سو فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب جب کہ دہلی فساد کاسچ سامنے آ گیا ہے۔ اس وقت دلّی ہائی کورٹ کے جسٹس مرلی دھر کی کورٹ میں گجرات کیڈر کے سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر جو مسلسل فرقہ پرستی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ایک آئی پی ایل داخل کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور دہلی بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کی نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات کے بعد ہی دہلی میں فساد بھڑکا اور دہلی پولیس جو مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے،اس نے فسادیوں کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ براہ راست خود فساد میں حصہ لیا۔یاد ہوگا کہ اس پی آئی ایل کی سنوائی کے بعد جسٹس مرلی دھر نے اشتعال انگیز تقاریر کا ویڈیو دیکھنے کے بعد ان ملزمین کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہوئے ان دونوں کو چوبیس گھنٹے کے اندر گرفتار کرنے کا حکم صادر کیاتھا۔ یہ ملزمین تو گرفتار نہیں ہوئے البتہ چند گھنٹوں اندرہی جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ کر دیا گیا۔ افسوس کہ ایسے لوگوں پرحکومت کی سرپرستی کے باعث ہی ان کے حوصلے بڑھتے رہتے ہیں کہ تم مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلاؤ، منافرت بڑھاؤ، انھیں گالیاں دو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں ایسی نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات پر وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کے صرف ایک مذمتی بیان کے بعد کسی کی اتنی جرأت ہوتی کہ پھروہ اپنی زبان پر ایسی ناقابل برداشت اور صبر و تحمل کا امتحان لینے والی بات لاتا۔ ان لوگوں نے اپنی نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات میں ایسی ایسی نازیبا اوربے ہودہ باتیں کی ہیں جن کے دہرائے جانے پر زبان گنگ ہو جاتی ہے اور قلم آگے نہیں بڑھتا ہے۔ کسی بھی مہذب ملک اور سماج میں ایسی زبان کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے میں ان باتوں کو یہاں پر دہرانے سے احتراز کر رہا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی نازیبا اورمنافرت بھری باتوں اور دھمکیوں پر قومی ہی نہیں بلکہ بین الا قوامی سطح پر مسلسل مذمت کی جاتی رہی ہے اور کی جا رہی ہے۔ لیکن افسوس کہ ان مذمت، تنقید، اعتراض، احتجاج کا ان پر کوئی اثر ہوتا دکھتا نہیں ہے۔
ملک کے مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات کے خلاف شاہین عبداللہ کی سپریم کورٹ میں دی گئی عرضی پر چند روز قبل ہی سماعت کرتے ہوئے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ملزمین کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی کا حکم دیا ہے نیز اتر پردیش، دہلی اور اترا کھنڈ پولیس اور انتظامیہ سے اس سلسلے میں کی گئی کارروائی کی رپورٹ طلب کی اور یہ بھی کہا کہ ایسے حساس معاملے میں پولیس ملزمین کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کے لیے کسی شکایت کا انتظار نہ کرے بلکہ از خود نوٹس لیتے ہوئے بلا تاخیر سختی سے عمل کرے۔ ان تینوں ریاستوں کی پولیس کو یہ بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر ہماری ہدایات کے مطابق عمل نہیں کیا گیا تو اسے توہین عدالت سمجھا جا ئے گا۔ بنچ نے عدالتی ذمہ داریوں اور فرائض کے سلسلے میں اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ عدالت پر بنیادی حقوق کی حفاظت اور آئینی اقدار بالخصوص قانون کی حکمرانی اور ملک کے سیکولر جمہوری کردار کے تحفظ کا فرض عائد کیا گیا ہے۔ جسٹس کے ایم جوزف نے ملک کے ایسے بدترین حالات پر افسردگی کے ساتھ یہ بات بھی کہی کہ ’ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟ ہم نے مذہب کو کس حد تک گھٹا دیا ہے، یہ افسوسناک ہے اور ہم سائنسی مزاج کی بات کرتے ہیں۔“ اس بنچ نے نفرت پھیلانے والے میڈیا کی بھی خبر لیتے ہوئے ایسے چینلوں کو سخت الفاظ میں متنبہ کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ہدایت دیتے ہوئے ایسے منافرت اور اشتعال بڑھانے والے میڈیا کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کیے جانے پر بھی افسوس ظاہر کیا ہے۔سپریم کورٹ کے ایک سابق جسٹس روبنٹن نریمن نے بھی منافرت اور اشتعال انگیز بیانات اور تقاریر پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک ویبنار میں کہا ہے کہ ’بد قسمتی سے حکمراں جماعت کے اعلیٰ عہدوں پر موجود لوگ ایسی نفرت پھیلانے والی تقاریر پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں‘۔جینوسائڈ واچ نے بھی منافرت، نسل کشی کی دھمکی، دہشت اور انسانی حقوق کی بڑھتی پامالی پر اپنی خاص رپورٹ میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ حد درجہ ہولناک اور تشویشناک ہے۔ابھی کچھ روز قبل ہی بھارت کے دورہ پر آئے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے ممبئی میں آئی آئی ٹی کے ایک جلسہ میں کہا تھا کہ ملک میں اقلیتوں کا تحفظ ہندوستان کی ذمہ داری ہے۔انٹونیو گویٹرس نے ہندوستان کے حکمرانوں کی حس کو جگانے کے لیے مزید کہا کہ دنیا میں مقبولیت اور شناخت ملک کے انسانی حقوق کے تحفظ سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے اور حقوق کونسل کے ایک منتخب رکن کے طور پر ہندوستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی انسانی حقوق کی تشکیل کرے اوراقلیتی برادریوں سمیت تمام افراد کے حقوق کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لیے کوشش کرے۔ تکثیریت کا ہندوستانی ماڈل ایک سادہ لیکن گہری سوچ و سمجھ پر مبنی ہے۔“ ان تمام قومی اور بین الاقوامی سطح پر دیے جانے والے ایسے بیانات اور تاثرات پر حکومت نے کسی طرح کا نوٹس نہیں لیا۔ اگر ایسا ہوتا تو ایسے بہت ہی حساس اور سنجیدہ معاملے میں حکمرانوں کی جانب سے ایک رسمی سا مذمتی بیان تو آ ہی سکتا تھا۔ ایسے ہی حالات کے پیش نظر علامہ اقبال نے کبھی کہا تھا:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر ٭ مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
افسوس اور تشویناک صورت حال یہ ہے کہ ملک کی سا لمیت کو خطرے میں ڈالنے والی ایسی ناعاقبت اندیشی سے اپنے ملک کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے اور پہنچنے کا اندیشہ ہے، یہ بات ان کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہی ہے۔ آج ملک کی یہ حالت ہے کہ ہر محاذ پر خواہ ملک میں تیزی سے گرتی معیشت ہو، بے روزگاری ہو، مہنگائی ہو، گلوبل ہنگر انڈیکس میں تو ہمارا ملک اس سال121 ممالک میں 107 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے جو افغانستان کو چھوڑ کر اپنے تمام پڑوسی ممالک کے مقابلے میں بدترین مقام پر آ گیاہے۔ ڈالر کے مقابلے روز بروز روپئے کی قدر و قیمت گرتی ہی جارہی ہے، دیگر میدانوں میں بھی اس ملک کا گراف بہت ہی شرمناک اور تشویشناک حد تک نیچے آ گیا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی برسر اقتدار حکومت ملک کے مختلف میدانوں کے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے ان تمام مسئلوں کو ترجیحی بنیاد پر بہت سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرتی۔ لیکن افسوس کہ حکومت اقتدار پر قابض رہنے کے لیے ملک میں مذہبی منافرت، عدم رواداری، اشتعال انگیزی پھیلا رہی ہے اور سرپرستی بھی کر رہی ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں جس طرح فرقہ وارانہ منافرت کا ماحول ہے۔ وہ کوئی حیرت انگیز نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کی سیاسی پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہمنوا پارٹیاں جس طرح پورے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر برسراقتدار آئی ہیں، اس سے انھیں بخوبی اندازہ ہے کہ ملک میں غریبی، بے روزگاری،نابرابری،مہنگائی،بے گناہوں پر ہونے والے جبر،ظلم و تشدد اوربربریت و استحصال کے خاتمے کے بر خلاف ملک کے لوگوں کے اندر فرقہ وارانہ منافرت کا زہر پھیلانا زیادہ کارگر ہوتا ہے۔
یہی وجہ رہی کہ مسلم مکت بھارت بنانے کی شروعات کیے جانے کا پروگرام بنا یا گیا تھا۔ یہ ایسی خبر تھی، جس کا ملک کے امن پسند اور سیکولر لوگوں نے شروعات میں اس لیے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا کہ جب سے مرکز میں آرایس ایس کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے، اس وقت سے نہ صرف ملک کے عام مسلمان، بلکہ دیگر مذاہب کے فرقہ واریت سے شدید نفرت کرنے والے لوگوں نے بھی کوئی توجہ نہیں دی کہ آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا جماعتوں مثلاََ بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد، درگا وا ہنی، ہندوستانی یووا ہندو دل، رام سینا، رام چرتر سینا، ہندو ویراٹھ سینا، ہندو یووا جاگرن منچ، ہندو سینا، اکھنڈ بھارت سمیتی، ہندو جاگرن سمیتی وغیرہ جیسی فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظیموں کی منافرت اورفرقہ واریت سے بھری غیر اخلاقی، غیر آئینی،غیر جمہوری اورغیر انسانی تقاریر و بیانات، جو مسلسل پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں آتے رہتے ہیں، ایسے بیانات کو عام طور پر ہذیان سے تعبیر کرکے نظر انداز کر دیتے تھے اور ایسا کرنا بھی چاہیے تھاکہ ایسے لغو، بے تکے، بے ہودہ اور غیر مہذب بیانات کا مقصد ملک کی اقلیتوں خاص طور پر ملک کے مسلمانوں کو مشتعل کرکے سیاسی فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ جسٹس سچر نے انتقال سے کچھ ماہ قبل ملک کے مذہبی فرقہ واریت میں ڈوبے منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت ملک کے مسلمان دہشت میں ہیں۔ پھر بھی ہم خواب خر گوش میں ڈوبے ہوئے ہیں۔حقیقت یہ ہے اگر ایسے پراگندہ ماحول کو پر قد غن نہیں لگائی گئی تو بہت ممکن ہے کچھ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا نقصان ہو جائے لیکن سب سے زیادہ ناقابل یقین حد تک نقصان اس ملک کا ہو گا۔ اس لیے کیا ہی بہتر ہو کہ ایسی دانستہ کوشش کرنے والے لوگ ملک کی فکر کریں اور ملک کو جہنم بنانے سے گریز کریں۔اسی میں سب کی بھلائی اور عافیت ہے۔
٭٭٭