مذہب

پہلے قیمت ادا کی جائے یا پہلے سامان ؟

قیمت اور اس کے بدلے میں فروخت شدہ چیز کے بارے میں اصول یہ ہے کہ اگر سونا سونا کے بدلہ یا کرنسی کرنسی کے بدلہ بیچی جائے ، تو دونوں کا بیک وقت لین دین ہونا چاہئے ، تقدیم و تاخیر نہ ہو، یہی حکم اس وقت بھی ہے جب ایک سامان دوسرے سامان سے فروخت کیا جائے ، جیسے چاول اور گیہوں کا تبادلہ ہو ، یا سبزی اور گوشت کا تبادلہ ہو وغیرہ ،

سوال:- اگر خرید وفروخت نقد ہو تو پہلے قیمت ادا کرنا ضروی ہوگا یا خریدار کو سامان حوالہ کرنا ؟ ایسا ہوتا ہے کہ بڑا ’’ مال ‘‘ ہے ، خریدار نے سامان تو پہلے اٹھالیا اور جاتے ہوئے کاؤنٹر پر پیسے اداکئے ، اس میں بعض دفعہ سامان کے غائب ہوجانے کا اندیشہ ہوتاہے ،

لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ پہلے قیمت ادا کرو ، اس کے بعد سامان اٹھاؤ ، تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا ؟ (نور خورشید ندوی ، بجنور )

جواب:- قیمت اور اس کے بدلے میں فروخت شدہ چیز کے بارے میں اصول یہ ہے کہ اگر سونا سونا کے بدلہ یا کرنسی کرنسی کے بدلہ بیچی جائے ، تو دونوں کا بیک وقت لین دین ہونا چاہئے ، تقدیم و تاخیر نہ ہو، یہی حکم اس وقت بھی ہے جب ایک سامان دوسرے سامان سے فروخت کیا جائے ، جیسے چاول اور گیہوں کا تبادلہ ہو ، یا سبزی اور گوشت کا تبادلہ ہو وغیرہ ،

اور اگر ایک طرف سے سامان ہو اور دوسری طرف سے رقم ، تو اصول یہ ہے کہ پہلے خریدار قیمت ادا کردے ، پھر سامان قبضہ میں لے : ’’ ومن باع سلعۃ بثمن قیل للمشتری ادفع الثمن أولا ومن باع سلعۃ بسلعۃ أو ثمنا بثمن قیل لہما سلما معا ‘‘ (فتاوی ہندیہ : ۳/۱۶) ؛

اس لئے یہ صورت بھی درست ہے کہ پہلے قیمت ادا کرکے پھر سامان حاصل کیا جائے ، جیسا کہ بعض دوکانوں میں بِل دیکھ کر سامان حوالہ کیا جاتا ہے ، اور جو صورت آپ نے لکھی ہے اور مروج ہے ، وہ بھی درست ہے ،

کیوںکہ مال یا سپر مارکیٹ میں پہلے صرف سامان جمع کیا جاتا ہے اور کاؤنٹر پر جب پیسے ادا کئے جاتے ہیں ، اس وقت سامان خریدار کے حوالہ ہوتا ہے ، یعنی مارکٹ کے اندر مال کا انتخاب ہوتا ہے ،

اور اصل خریدو فروخت اس کاؤنٹر پر ہوتی ہے ، جس سے خریدار باہر نکلتاہے ، اس لئے اس میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں ۔