مذہب

حج کی ادائیگی فکسڈ ڈپازٹ کی رقم سے

شریعت نے سودی معاملہ کو ناجائز قرار دیا ہے، خواہ بینک سے حاصل کی گئی۔ انٹرسٹ کی رقم ہو یا کسی اور ذریعہ سے، سود کی حرمت کی صراحت خود قرآن مجید میں ہے:

سوال:- زید کو نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک خطیر رقم ملی، جس میں اس نے اتنی رقم بینک میں فکس ڈپازٹ کرادی کہ جس کا ہر مہینہ پانچ ہزار روپیہ سود کا ملا کرے گا۔

لڑکی کے نام سے اس کی شادی کیلئے ایک بڑی رقم اس نیت سے جمع کرادی کہ سات سال کے بعد وہ ڈبل ہوجائے۔

دوسری طرف وہ حج کیلئے بھی روانہ ہوگیا اور اب واپسی کے بعد وہ اس سود کی رقم پر گزارا کرے گا، تو کیا حج سے آنے کے بعد اس طرح خالص سود کی رقم پر گزارا کرنا درست ہے؟ (محمد الیاس، جل پلی)

جواب:- شریعت نے سودی معاملہ کو ناجائز قرار دیا ہے، خواہ بینک سے حاصل کی گئی۔

انٹرسٹ کی رقم ہو یا کسی اور ذریعہ سے، سود کی حرمت کی صراحت خود قرآن مجید میں ہے:

احل اللہ البیع و حرم الربٰوا (البقرۃ:275۔مرتب) ایک اور آیت میں بھی اس کا ذکر ہے۔ (آل عمران: 130)

احادیث میں بھی بکثرت اس کی شناعت بیان کی گئی ہے:

’’عن جابرؓ قال: لعن رسول اللہﷺ آکل الرباء و مؤکلہ و کاتبہ و شاہدیہ و قال: ھم سواء (صحیح البخاری، حدیث نمبر:1598)