مذہب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام رشوت خوروں کے نام

’’رشوت ‘‘ یہ لفظ معروف ہے جب بھی یہ لفظ ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے تواس کی خباثت و برائی ہوتی ہے اور ایک خاص مفہوم ہمارے ذہنوں میں اجاگر ہوتا ہے اگرچہ کہ یہ لفظ عربی زبان سے مأخوذ ہے لیکن زبان اردو میں بھی مستعمل ہے اسی سے بعض الفاظ عرف عام میں مشہور ہیں اگر کوئی آدمی رشوت کھاتا ہے تو ہم اسے ’’ رشوت خور کہتے ہیں‘‘

محمدعبد الرحیم خرم عمری جامعی
مہتمم ومؤسس جامعہ اسلامیہ احسن الحدیث
عبا داللہ فاؤنڈیشن۔ فون نمبر:9642699901

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

(۱)
’’رشوت ‘‘ یہ لفظ معروف ہے جب بھی یہ لفظ ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے تواس کی خباثت و برائی ہوتی ہے اور ایک خاص مفہوم ہمارے ذہنوں میں اجاگر ہوتا ہے اگرچہ کہ یہ لفظ عربی زبان سے مأخوذ ہے لیکن زبان اردو میں بھی مستعمل ہے اسی سے بعض الفاظ عرف عام میں مشہور ہیں اگر کوئی آدمی رشوت کھاتا ہے تو ہم اسے ’’ رشوت خور کہتے ہیں‘‘ اگر کسی ادارہ میں رشوت کا چلن عام ہے تو ہم کہتے ہیں ’’ رشورت خوری‘‘،لیکن عربی زبان میں سب سے نفیس اور عمدہ معنی بیان کئے گئے ہیں ان معنوں پر غور وفکر کرنے سے ہی اس کی گندگی و خباثت واضح ہوجاتی ہے۔

رشوت کی لغوی تعریف:’’رشوت‘‘ کی لغوی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے ’’ رِشا‘‘ یعنی ڈول کی رسی،اور یہ لفظ ’’رسی‘‘ کے لئے بھی کہا گیا ہے،اسی سے کہا گیا کہ:’’ أرْشتَ الدَّلْوُ‘‘ یعنی ڈول میں رسّی لگایا ، اسی طرح ’’ جب حنظل کی بیلیں پھیل جاتی ہیں تو کہتے ہیں’’ ارشتْ‘‘ یعنی بیلیں پھیل کر لمبی لمبی ٹہنیوں والی ہوگئیں جیسے رسی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح کہا جاتا ہے :’’ اِسْتَرْشٰی مَافِیْ الضَّرْعِ ‘‘ یعنی تھن سے سارا دودھ نکالا،اور اس میں جوتھا اس کو حاصل کر لیا ‘‘۔ اسی سے کہا جاتا ہے:’’ مُرَاشَاۃ‘‘: یعنی ایک دوسرے کی مدد کرنا اور فیصلہ و انصاف سے ہٹ کر مائل ہونا ۔ ’’رشوۃ ‘‘کا ہم معنی ایک اور لفظ ہے جسے ’’برطیل‘‘ کہا گیا ہے جس کا معنی ہے ایک سخت گول لمبا پتھر جو بولنے والے کے منہ میں اس لئے ڈال دیا جاتا ہے تاکہ بات کرنے اور بولنے سے اس کو روکے رکھے‘‘ اسی طرح ضرب المثل کے طور پر کہا جاتا ہے :’’ البَرَاطِیْل تَنْصُرُ الاباطیل‘‘ یعنی رشوت باطل کاموں کے لئے ممد و معاون ہوا کرتی ہے۔

رشوت کی اصطلاحی تعریف: اہل علم نے’’ رشوت‘‘ کی مختلف تعریفات کی ہیں(۱) بعض اہل علم نے نے کہا:’’رشوت ہر وہ مال جو بشرط اعانت خرچ کیا جائے یعنی ہر وہ مال جو کسی کام میں کسی شخص کی مدد حاصل کرنے کی غرض سے خرچ کیا جائے ‘‘۔(۲)بعض اہل علم نے کہا:’’ رشوت وہ ہے جس کو لینے والے کی طلب پر اس کے حوالے کیا جائے ، یعنی رشوت لینے والے کی طلب پر جو مال اسے بطور رشوت دیا جائے وہ رشوت کہلا تا ہے ‘‘۔(۳) بعض اہل علم نے کہا:’’ رشوت ہر وہ اجرت اور مزدوری جس کا حرام ہونا تینوں شرعی اصول( کتاب، سنت ، اجماع) سے ثابت ہو ،ایسا مال رشوت کہلاتا ہے، جو کسی مصلحت یا مفاد کی تکمیل کے سبب عوض دیا جائے ‘‘۔(۴)بعض اہل علم نے کہا:’’رشوت‘‘ حاجت برآری کا ایک ذریعہ ہے جو مصانعت(یعنی رشوت) کے لین دین سے عمل میں آتا ہے ، یعنی کوئی آدمی اپنی حاجت نکالنے کے لئے ،فیصلے میں انصاف سے ہٹانے کے لئے مال کا لالچ دے کر، خاطر مدارات کرکے،یا چاپلوسی کے ذریعہ جو رشوت دیتا ہے اس کو رشوت کہاجاتا ہے‘‘۔(۵) بعض یہ کہتے ہیں کہ:’’ رشوت وہ ہے جو حق کو باطل،اور باطل کو حق ثابت کرنے کے لئے دیاجائے‘‘۔(۶) بعض یہ کہتے ہیں کہ :’’ رشوت وہ چیز ہے جسے کوئی آدمی محض اس لئے دیتا ہے تاکہ اس کے حق میں کوئی باطل فیصلہ صادر کردیاجائے،یا کسی منصب پر فائز کردیا جائے ، یا اس کی خاطر کسی انسان کی حق تلقی کی جائے، اس پر ظلم و زیادتی کی جائے‘‘۔(۷)امام ا بن عابدین رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ رشوت وہ چیز ہے جو آدمی کسی حاکم یا غیر حاکم کو اس مقصد کے لئے دیتا ہے کہ فیصلہ اس کے حق میں ہو یا اس کے من پسند منصب پر اسے فائز کردیا جائے‘‘۔یہ رشوت کی لغوی و اصطلاحی تعریفات ہیں جسے اہل علم نے بیان فرمایاہے اسی سے یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ اسی سے بعض الفاظ مستعمل ہیں جس کی تعریف جاننا ہمارے لئے ضروری ہوگا ، عرف عام میں ایک لفظ مشہور ہے جیسے ’’ مرتشی‘‘یعنی وہ شخص جو کسی دوسرے سے مال کا تقاضا کرتا ہے، یا اس سے کسی نفع کا حصول چاہتا ہے تاکہ اس کے عوض اس کی کوئی غرض پوری کردے جس کی ادائیگی اس کے لئے ضروری ہو ، یا اس کا کائی غیر شرعی کام انجام دے دے ، کام انجام دینے کا مطلب دونوں سے ہے۔یعنی کام کردینا ، یا کام کرنے سے رک جانا ۔اسی طرح ایک اور لفظ’’ راشی‘‘ہے جو بہت معروف ہے یعنی یہ وہی شخص ہے جو یہ سارا مال خرچ کرتا ہے ، یا مفاد بہم پہنچاتا ہے تاکہ اس کی غرض پوری ہوسکے‘‘۔(مأخوذ کتاب/ رشوت شریعت اسلامیہ میں ایک سنگین جرم / عبد اللہ بن عبد المحسن الطریقی ، ص:75 ۔تا۔ 81 )

رشوت کے لئے دوسرا لفظ’’ سحت‘‘:رشوت کے لئے ایک دوسرا لفظ بھی قرآن مجید وحدیث مبارکہ میں ذکر کیا گیا ہے جسے’’ سحت ‘‘کہتے ہیںقرآن مجید میں اس لفظ کا تذکرہ تین مقامات پر کیا گیا ہے جس کا معنی ہے’’ حرام کھانا‘‘یا ’’ حرام طریقوں سے کھانا‘‘ جو یہود و نصاری کا وطیرہ تھا ان کے پاس حرام ذرئع سے مال کھانا کوئی معیوب بات نہ تھی اللہ سبحانہ و تعالی نے یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ َ’’یہ کان لگا کر جھوٹ کے سننے والے ، اور جی بھر بھر کر حرام کے کھانے والے ہیں ‘‘۔( المائدہ:42 )اسی طرح یہود کی یہ بری خصلت بتائی گئی ہے کہ وہ وہ مال حرام کھانے میں جلد بازی کرتے ہیں، جس معاملے میں انھیں مال حرام حاصل ہوتا وہ امور انجام دینے میں جلدی کیا کرتے تھے اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا: وَتَرٰی کَثِیْرً امِّنْھُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان وَاَ کْلِہِمُ السُحْتَ لَبِئْسَ مَاکَانُوْایَعْمَلُوْنَ ’’آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر گناہ کے کاموں کی طرف اور ظلم و زیادتی کی طرف اور مال حرام کھانے کی طرف لپک رہے ہیں،جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ نہایت برے کام ہیں‘‘۔( المائدہ:62 )ہر قسم کے مال حرام کھانے ، کھلانے اور مروجہ طریقوں سے روکنے کی ذمہ دری و فریضہ علمائے کرام پر عائد ہوتا ہے اسی لئے اللہ سبحانہ وتعالی نے بیان فرمایا لَوْلَایَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُعَنْ قَوْلِھِمُ الْاِ ثْمَ وَاَکْلِھِمُ السُحتَ لَبِئْسَ مَاکَا نُوْایَصْنَعُوْنَ ’’انہیں ان کے عابد و عالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے بے شک برا کام ہے جو یہ کر رہے ہیں ‘‘۔( المائدہ:63 )

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ:’’ مسروق رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے انھیں یہ کہتے ہوئے سنا : مَنْ رَدَّ عَن مُسْلِمٍ مُظْلمَۃً فأَعْطَاہُ عَلَی ذالِکَ قَلِیْلاً أَوْکَثِیْراًفَھُوَسُحْتٌ۔ فَقَالَ رَجُلٌ :یَاأَبَاعَبْدَ اللّٰہِ مَاکُنَّانَظُنُّ أَنَّ السُّحْتَ اِلَّا الرِّشْوَۃَ فِیْ الْحُکْمِ ۔ فَقَالَ: ذالِکَ کُفْرٌ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ’’جس شخص نے ایک مسلمان سے ظلم کو دور کیا اور اس نے کم یا زیادہ سے کچھ دیا تو وہ حرام ہے ۔ ایک شخص نے کہا : ابو عبد اللہ ! ہم تو صرف یہ فیصلہ دینے کی بابت رشوت دینے کو سحت( حرام) سمجھتے تھے ۔ آپ نے فرمایا : یہ تو کفر ہوگا اس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں‘‘۔ دفع ظلم کے لئے مال لینا سحت ہے ،اور سحت حرام ہے ، اس لئے ظلم دفع کرنے کے لئے مال لینا بھی حرام ہوگا ، نیز اس لئے کہ مسلمان سے ظلم کا دفاع کرنا واجب ہے اور واجبات پر مال لینا جائز نہیں ۔( فتح القدیر : ج۔۵۔ص۔ ۴۵۶)

سحت کی تعریف میں ایک اور روایت یوں ذکر کی گئی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : السُّحْتُ أَنْ تَطَلَّبَ لأَخِیْکَ حَاجَۃٌ فَتَقْضِیْ فَیُھْدِیْ اِلَیْکَ ھَدِیَۃٌ فَتَقْبَلُہَا مِنْہُ ’’ سحت یہ ہے کہ تمہارے بھائی کو کوئی حاجت درپیش ہو ،اور تم اسے پورا کردو ، پھر وہ تمہیں کوئی ھدیہ دے اور تم اسے قبول کرلو ‘‘( تعریب السیاسیۃ الشرعیہ فی حقوق الراعی وسعادۃ الرعیۃ:۵۲/حاشیہ الرہونی: ج ۷: ص۔۳۱۳)

رشوت کی بعض صورتیں:رشوت لینے اور دینے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں ، رشور صرف یہ نہیں کہ وہ حکموتی اداروں میں چلتی ہے بلکہ رشوت یہ بھی ہے کہ اپنے کسی ناھْ کام کا نکامت کے لئے پیسہ دینا اور لینا رشوت کہلاتا ہے ۔

(۱) قاضی یعنی جج و مجسٹریٹ کا رشوت لینا : اللہ سبحانہ و تعالی کسی انسان کو قاضی اور جج بنا تا ہے تو عدل و انصاف اس کے حوالے کردیتا ہے ہر قاضی و جج و مجسٹریٹ کے لئے ضروی ہے کہ وہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے چاہے وہ مسلمان ہو کہ غیر مسلم ہو ہرایک کے لئے عدل وانصاف ضروری ہے مسلمان جج و قاضی کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے والا ہے اسی لئے اللہ سحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا:اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّواالْاٰمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَاوَاِذَ احَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْابِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّایَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ ا للّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچائو ،اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو یقینا وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے،بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے دیکھتا ہے‘‘۔ ( النساء:58 ) اس آیت کریمہ کا حکم عام ہے تاقیامت آنے ولے جج ، مجسٹریٹ ، وکیل اور قاضیوں کے لئے یہی حکم ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو کائنات کے سپریم جج وسپرم مجسٹریٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بڑا اور سب سے اہم فیصلہ صادرفرمایاکہ’’ حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان و کلید برادر چلے آرہے تھے ، مکہ فتح کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عثمان بن طلحہ ر ضی اللہ عنہ کو جو کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو چکے تھے طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں حوالے کر کے فرمایا ’’ یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے‘‘ یہ چابیاں ان کے حوالے کردیا، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو یہ چا بیان ان سے حاصل کر لیتے۔ اسی لئے قاضی کو چاہئے کہ وہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرے ،آج بھی خانہ کعبہ کے کلید برادار اسی خاندان کے سپوت ہیں۔ قاضی ، جج، مجسٹریٹ کو چاہئے کہ وہ کسی کا تحفہ قبول نہ کرے کیونکہ یہ تحفہ عدل کے تقاضوں میں حائل ہوگا یہی تحفہ رشوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے ایک مشہور و معروف فقرہ ہے جس میں کہا گیا کہ: ’’جب تحفہ تحائف دروازے سے آتے ہیں ،تو امانت روشن دان سے نکل کر اڑ جاتی ہے‘‘ (مبسوط: ج۔ ۱،ص:۸۲) اس ضمن میں اہل علم کے بہت سے استفسارات موجود ہیں لیکن بعض باتیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں ۔(۱) علامہ علاؤالدین طرابلسی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں’’ قاضی کو مطلقاً تحفہ لینے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ تحفہ قبول کرنے پر لینے والا ، دینے والے سے لازما نرم روی اور سیر چشمی کا برتاؤ کرتا ہے، جس کا خمیازہ قاضی کو بھگتنا پڑتا ہے اور بگاڑ سے بچنا اس کے لئے مشکل ہوتا ہے‘‘( معین الحکام:۱۷)کسی بھی قاضی ، جج و مجسٹریٹ کو چاہئے کہ وہ حاکم وقت کا تحفہ ہر گز قبول نہ کرے کیونکہ تحفہ حاکم وقت کے فیصلے میں حائل ہوگا اہل علم نے کہا :’’ والی و حاکم کا تحفہ جس نے خود قاضی مذکورکومنصب قضاء پر فائز کیا اور ا سکا کوئی مقدمہ زیر سماعت ہے جس کا اب تک فیصلہ نہیں سنایا گیا‘‘ (الفتاوی الہندیہ: ج۔ ۳،ص: ۲۲۶) اسی طرح قاضی وہ ایسے شخص کا تحفہ ہرگز قبول نہ کرے جو اسے اسی لئے تحفہ دیتا ہے کہ وہ منصب قضاء پر فائز ہے ، اگر وہ قاضی نہ ہوتا تو اسے ہر گز تحفہ نہ دیتا ‘‘۔ (حاشیہ ابن عابدین: ج۔ ۵،ص۔۳۷۳)حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَخْذُ الأَمِیْرِ الھَدِیَۃَ سُحْتٌ وَقُبُوْلُ القَاضِیْ الرِّشْوَۃ کُفْرٌ ’’امیر کا ھدیہ لینا حرام ے ،اور قاضی( جج، مجسٹریٹ) کا رشوت لینا کفر ہے‘‘( احمد/ کنز العمال، ج:۶،ص:۵۶)

حاکم وقت کو تحفہ:حاکم وقت کو تحفہ دینا اور حاکم وقت کا اپنی رعیت سے تحفہ قبول کرنا رشوت میں داخل ہوگا کیونکہ تحفہ دینے والا اس امید و نیت سے تحفہ دیتا ہے کہ آنے والے وقت و حالات میں حاکم اس کے ساتھ رعایت و نرمی برتے اور حاکم وقت کو تحفہ دینے والے کوئی معمولی لوگ نہیں ہوتے بلکہ یہ سماج کے ذی اثراور بڑے تاجر ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ وقت حکمرانوں کے قریب رہیں تاکہ ان کے غیر قانونی معمولات بنا کسی رکاوٹ کے جاری رہیں اسی لئے وہ وقت کے حکمرانوں کو ہدایا و تحائف دیا کرتے ہیں یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ حاکم کے معنی وقت کا وزیر اعظم و وزیر اعلی ہی نہیں بلکہ حکومت کے کسی بھی منصب پر فائز وزراء و نظماء بھی ہیں اور ہر وہ انسان جو کسی نہ کسی طرح حکومت کے ساتھ معاون و مدد گار ہے جیسے یم یل اے ، یم یل سی ، یم پی ، زیڈ پی ٹی سی ، یم پی ٹی سی سب لوگ شامل ہوں گے، یہاں گفتگو صرف اسلامی حکمت کے دائرہ میں نہیں ہے بلکہ حکومت چاہے کوئی بھی ہواس حکومت کو نقصان پہنچانے والی چیز رشوت ہی ہے وہ کسی بھی شکل و صورت میں کیوںنہ ہو، ہر مسلمان سیاست دان و حکمران کو اس کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے۔اگر حکمران کو بنا کسی غرض و غایت کے تحفہ و ھدیہ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

امام ابن عابدین رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ :’’ حاکم کے لئے ہدیہ تحفہ قبول کرنا نا پسند ہے ،اور حلال نہیں ہے ، اس لئے کہ والی دیگر حکام کا سربراہ اور مملکت کا صدر نشین ہوتا ہے ، اس کو پیشوا ہونے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے لہٰذا اس کو تحفہ لینا حرام ہوگا‘‘( حاشیہ ابن عابدین:، ج۔۵، ص:۳۳۷) اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشادفرمایا :’’ امام( والی و حکمران) کو تحفہ دینا خیانت ہے ‘‘۔( طبرانی فی الکبیر / کنز العمال :ج۔۶۔ص:۵۶/ فیض القدیر: ج۔ ۶: ص۔ ۳۵۷) اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے حضرت عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :’’ سلطان کو ھدیہ دینا انتہائی قبیح و حرام اور خیانت ہے‘‘۔ ( ابن عساکر / کنز العمال :ج۔۶۔ص:۵۶)اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’امراء کو ھدیہ دینا خیانت ہے‘‘۔ (کنز العمال :ج۔۶۔ ص: ۵۸/ نیل الاوطار:ج۔۸:ص:۲۷۸) یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ حکومت کا کوئی بھی وزیر یا عہدایدار اپنے منصب پر فائز ہوکرکوئی ہدیہ و تحفہ قبول نہ کرے اس سے حکومت کو نقصان پہنچتا ہے اسی لئے حضرت طاؤوس رحمہ اللہ سے حکمرانوں کے تحفے و تحائف کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :’’ حرام ہے‘‘۔اسی طرح حضرت جابراور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’ بادشاہوں کے تحفے خیانت ہوتے ہیں‘‘۔ حضر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ :’’ گورنروں کے تحفے اول تو قبول نہیں کرتے تھے اور اگر قبول بھی فرماتے تو اسے بیت المال میں جمع کروادیتے ، کوئی کہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحفے قبول فرماتے تھے تو جواب دیتے کہ آپ کے وقت میں وہ ہدیہ ہوتا تھا لیکن آج رشوت ہے ‘‘( حاشیہ الرھونی: ج۔ ۷: ص۔ ۳۱۲)

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو جب ہدیا و تحائف آتے تووہ اسے واپس کردیا کرتے تھے جب ان سے کہا جاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہدیا و تحائف قبول کیا کرتے تھے تو آپ جوابا عرض فرماتے کہ :’’ وہ آپ کے لئے تحفہ ہوا کرتا تھا لیکن ہمارے لئے رشوت ہے ‘‘ اس لئے بھی کہ تحفہ آپ کو مقام نبوت پر فائز ہونے کی وجہ سے ملتا تھا والی ہونے کی وجہ سے نہیں ،اور ہمیں محض والی ہونے کی بنا پر تحفہ ملتا ہے ‘‘ اس کو امام بخاری نے نقل کیا ہے ( معین الحکام :ص:۱۷/ الحلال و الحرام فی الاسلام :ص۔ ۳۳۲)اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں ہے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ اسْتَعْمَلْنَاہُ عَلَی عَمَلٍ فَرَزَقْنَاہُ رِزْقًا۔۔مَنَحْنَاہُ مُرَتَّبًا ۔۔ فَمَاأَخَذَہُ بَعْدَ ذالِکَ فَھُوَ غُلُوْلٌ’’جس شخص کو ہم نے کسی کام کے لئے مقرر کیا اس کے لئے کچھ روزینہ مقرر کردیا ، پھر اس کے علاوہ وہ جو کچھ لے گا خیانت ہوگی‘‘(ابو داؤد / نیل الاوطار، ج۔ ۸، ص: ۲۷۸/ الحلال و الحرام فی الاسلام للقرضاوی: ص:۳۲۲) اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ نہ اپنے لئے تحفے قبول فرماتے اور نہ اپنے اہل خانہ کے لئے تحفے قبول فرماتے تھے ایک وقت کی بات ہے :’’ روم کی شہزادی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کلثوم بنت علی بن ابوطالب کو تحفہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو رد کردیا اور اہلیہ کو اس کے تحفے قبول کرنے سے منع فرمادیا ‘‘( احکام القرآن للجصاص: ج۔ ۴: ص۔۸۷) اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرزند عبید اللہ کو اہل عراق نے قیمتی تحفے پیش کئے جب وہ واپس آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی خوب سرزنش کی اور تمام تحائف کو بیت المال میں جمع کروادیا ‘‘( سیرۃ عمر بن الخطاب، للصلابی)

اسی طرح حکومت کا ایک اہم عنصر تحصیلدار ہوتا ہے اور حکومت کے دیگر شعبے جات بھی ہوتے ہیں جس کے کسی بھی ذمہ دار کو عوام الناس سے تحفے و ہدایہ قبول نہیں کرنا چاہئے اگر کوئی انہیں تحائف پیش کرے تو وہ حکومت کی ملکیت ہوگی کیونکہ اس کا عہدہ حکومت کے سبب ہے اس کی ذات کے سبب نہیں اس ضمن میں ایک جامع طویل حدیث ہے لیکن ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں کہ :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص ابن لتبیہ کو بیت المال کو صدقہ ، زکاۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا ، جب وہ واپس ہوا تو ارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ کہتے ہوئے سارا مال ڈال دیا کہ یہ مال بیت المال کو ہے اور یہ میرا ہے جسے لوگوں نے ہدیہ کے طور پر دیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی یہ بات سن کر منبر پرکھڑے ہوئے اور لوگوں سے خطاب کیا کہ :’’ ان تحصیلداروں کو کیا ہو گیا ہے؟ جنہیں ہم وصولیابی کے لئے بھیجتے ہیں جب وہ واپس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ :’’ یہ آپ کا مال ہے ‘‘ اور یہ ’’ ہمارا مال ہے‘‘ بھلا یہ اپنے ماں باپ کے گھروں میں بیٹھے رہیں پھر دیکھیں کہ کیا نہیں تحفے کوئی لاکر دیتا ہے ؟ یا نہیں ؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ! یہ جو چیز لے کر قیامت کے دن آئیں گے اسے اپنی گردنوں میں اٹھائے ہوں گے …الخ‘‘ (بخاری و مسلم )اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے حضرت عرباض رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ھَدَایَا العُمَّالِ غُلُوْلٌ ’’تحصیلدار وںکے ہدایا خیانت ہے ‘‘(کنز العمال ج۔ ۶:ص۔ ۵۶) اسی طرح حضرت حذیفہ رضی اللہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تحصیلدداروں کے کل تحفے حرام ہیں‘‘۔(کنز العمال ۔ج۶: ص۔۵۶) اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے تحصیلداروں کے پاس یہ فرمان لکھ کر بھیجا تھا: اِیَّاکُمْ وَالھَدَایَا فَاِنَّہَا فِیْ الرِّشَا ’’ہدیہ اور تحفے سے بچو کیونکہ یہ بھی رشوت ہے‘‘(المسئولیۃ الجنائیۃ فی الفقہ الاسلامی:ص۔۷۶) اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: یَأتِ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَسْتَحِلُّ فِیْہِ السُّحْتُ بِالْھَدِیَۃِ’’ ایک زمانہ آئیگا جب لوگ سحت کو ھدیہ کہہ کر اپنے لئے حلال کرلیں گے‘‘( معین الحکام:۱۷)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو تحصیلدار بنایا تھا آپ لوٹے تو آپ کے پاس کچھ مال تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تمہیں یہ کہاں سے مل گیا ؟ انہوں نے کہا : مجھے تحفے کے طور پر ملا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دشمن خدا! گھر میں بیٹھے رہتے ، پھر دیکھتے کہ کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد آپ نے وہ مال لے لیا اور اسے بیت المال میں داخل فرمادیا‘‘۔( عون المعبود شرح سنن ابوداؤد: ج۔ ۹:ص۔۴۹۷) اسی طرح ایک اور روایت میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا:’’ میری اجازت کے بغیر کوئی چیز قبول نہ کرنا‘‘۔( ترمذی/ فتح الباری شرح صحیح بخاری: ج۔۱۶:ص:۲۹۰) اسی طرح عصمہ بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الھَدِیَّۃُ تُذْھَبُ بِالسَّمْعِ وَالقَلْبِ وَالبَصَرِ ’’ ہدیہ کان ،دل ، اور آنکھوں کو چھین لیتا ہے‘‘( حاشیہ الرہونی:ج۔۷: ص۔ ۳۱۲) اس ضمن میں اور بھی بہت سی باتیں ہیں جسے آئندہ قسط میں بیان کیا جائیگا ، ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ رشوت کو معمولی چیز نہ سمجھے بلکہ رشوت کے چور دروازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتارہے اللہ تعالی ہم سب کو رشوت کی برائی سے بچائے آمین یا ربالعالمین۔
٭٭٭