سوشیل میڈیامذہب

جھینگا کھانا حلال ہے یا حرام؟

شراب نوشی ہمارے مسلم معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہے، تمباکو کا استعمال نوجوانوں میںروز بروز بڑھتا جا رہا ہے، حالانکہ نشہ آور چیزیں حرام ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لئے بھی انتہائی مضر ہیں، جس کو پوری دنیا تسلیم بھی کرتی ہے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

آج کل عام مسلمانوں نے حلال وحرام کے درمیان تمیز کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ کتنے ہی لوگ دوسروں کا حق بھی کھاجاتے ہیں۔ کسی بھی صورت سے مال ملنا چاہئے خواہ وہ جائز وسائل سے آرہا ہو یا ناجائز وسائل سے۔ حتی کہ بعض حضرات کھانے پینے میں بھی حلال وحرام کو نہیں دیکھتے۔ مثلاً شراب نوشی ہمارے مسلم معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہے، تمباکو کا استعمال نوجوانوں میںروز بروز بڑھتا جا رہا ہے، حالانکہ نشہ آور چیزیں حرام ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لئے بھی انتہائی مضر ہیں، جس کو پوری دنیا تسلیم بھی کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود الحمد للہ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جھینگا کھانے کے حکم کے متعلق وقتاً فوقتاً احباب سوال کرتے رہتے ہیں، چنانچہ ارادہ کیا کہ جھینگا کھانے کے حکم کے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارے علماء کرام نے جو صحیح سمجھا ہے، وہ چند سطور میں تحریر کردوں۔

جھینگے کو انگریزی میں Shrimp اور Prawn، جبکہ عربی میں روبیان اور جمبری کہتے ہیں۔ اِن دَونوں کے درمیان بھی فرق ہے، لیکن وہ اس وقت موضوع بحث نہیں۔ جھینگے کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق ابتداء اسلام سے ہی اختلاف چلا آرہا ہے۔ جھینگے کے حکم کے متعلق قرآن وحدیث میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے، اور نہ ہی محسن انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام سے اس کا کھانا ثابت ہے۔ اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ جھینگا مچھلی ہے یا نہیں، جنہوں نے جھینگے کو مچھلی کی ایک قسم قرار دیا ہے، ان کی رائے میں دیگر مچھلیوں کی طرح جھینگا کھانا بھی جائز ہے، اور جن علماء کرام نے جھینگے کا مچھلی ہونے سے انکار کیا ہے، وہ اس کے کھانے کے عدم جواز کے قائل ہیں۔ دونوں جماعتوں نے ڈکشنریوں کے ذریعہ اپنے اپنے موقف کی تایید کی ہے۔ لیکن ایک اصولی بات دلائل پر بحث کرنے سے قبل ہی ذکر کردیتا ہوں کہ آج بھی جھینگا کھانے والا یہ نہیں کہتا کہ میں نے آج کھانے میں مچھلی کھائی ہے بلکہ یہی کہتا ہے کہ میں نے جھینگا کھایا ہے۔ نیز کسی بھی ہوٹل میں مچھلی کا آڈر دینے پر جھینگا پیش نہیں کیا جاتا۔ جانوروں کے ماہر ڈاکٹروں نے بھی جھینگے اور مچھلی میں فرق کیا ہے، جھینگے اور مچھلی کے رہنے کا سٹائل بھی مختلف ہے۔

۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور علماء احناف نے جھینگے کو مچھلی میں شمار نہیں کیا ہے، لہٰذا انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میںاس کے حرام ہونے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ دیگر فقہاء وعلماء کرام نے اس کو مچھلی کی ایک قسم قرار دیا ہے، لہٰذا انہوں نے اس کے کھانے کے حلال ہونے کا فتوی دیا ہے۔ ہمارے علماء کرام جو اختلافی مسائل میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی قرآن وحدیث کی روشنی پر مبنی رائے کو ترجیح دیتے ہیں، نے کہا کہ ہمیں جھینگے کھانے سے حتی الامکان بچنا چاہئے، فقہاء وعلماء میں اختلاف کی وجہ سے انہوں نے اس کے حرام ہونے کا نہیں بلکہ مکروہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ مکروہ کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ ہم نہ کھائیں۔

آئیے علماء احناف کی رائے کو قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اصول بیان کیا ہے: حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ تم پر مردار جانور کا گوشت حرام کردیا گیا ہے۔ (سورۃ المائدہ ۳) قرآن کریم کے اس واضح اعلان کے مطابق اصولی طور پر مردار جانور کا گوشت کھانا حرام ہے۔ لیکن محسن انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، جن پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا تاکہ آپؐاپنے قول وعمل سے احکام الہٰی کی وضاحت فرمادیں، نے فرمایا: ہمارے لئے دو مردار کو حلال کیا گیا ہے،ایک مچھلی اور دوسرے ٹڈی۔ (ابن ماجہ، مسند احمد، دار قطنی) غرضیکہ قرآن وحدیث کے اعلان کے مطابق مچھلی اور ٹڈی کے علاوہ تمام مردار جانور کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اور جھینگا مچھلی نہ ہونے کی وجہ سے اس کاکھانا بھی حرام ہے۔ سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کا کھانا حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام سے ثابت ہے۔

بعض حضرات نے جھینگے کے جواز کے لئے قرآن کریم کی اس آیت کو پیش کیاہے: اُحِلَّ لَکُمْ صَیدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہُ مَتَاعاً لَکُمْ (سورۃ المائدہ ۹۶) لیکن اس آیت سے جھینگے کے کھانے کوحلال قرار دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس آیت اور اس سے قبل آیت میں حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کا تذکرہ ہے کہ احرام کی حالت میں خشکی کے جانور کاشکار کرنا جائز نہیں ہے، اس پر جزا واجب ہوگی، لیکن احرام کی حالت میں پانی کے جانور یعنی مچھلی کا شکار کیا جاسکتا ہے۔ اس پر کوئی دم وغیرہ واجب نہیں ہے۔ اگر اس آیت کا وہ مطلب لیا جائے جو بعض حضرات نے لیا ہے تو مینڈھک، پانی کے سانپ اور تمام دریائی جانور حلال ہوجائیں گے، جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھینگے کے مچھلی ہونے یا نہ ہونے کے اختلاف کی وجہ سے اس کے کھانے کے جواز اور عدم جواز پر زمانہ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جھینگے کے حرام یا حلال ہونے کا کوئی قول کتب حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح کسی بھی حدیث یا سیرت یا تاریخ کی کتاب میں مذکور نہیں ہے کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے جھینگا کھایا ہو باوجودیکہ انہوں نے سمندر میں گھوڑے دوڑائے یعنی وہ سمندری زندگی سے ہم سے زیادہ واقف تھے۔ نیز قرآن کریم کے فیصلہ کے مطابق مردار جانوروں میں اصل اس کی حرمت ہے، لہٰذا شک وشبہات والی صورتوں میں اصل کی طرف رجوع کرکے جھینگا نہ کھانے کو ہی ترجیح دی جائے گا۔
٭٭٭