مہاراشٹرا

ممبئی: کیفی اعظمی کی قبر کا کتبہ اکھاڑ دیا گیا

معروف شاعر، نغمہ نگار، اور ترقی پسند تحریک کے ایک ستون کیفی اعظمی کی ممبئی میں واقع قبر پر نصب کتبہ کو اکھاڑ دیا گیا اور قبر کا نشان مٹا دیا گیا ہے۔ کیفی اعظمی مشہور شاعر ونغمہ نگار مشہور اداکار شبانہ اعظمی کے والد اور مصنف و شاعر جاوید اختر کے خسر ہیں۔

ممبئی: معروف شاعر، نغمہ نگار، اور ترقی پسند تحریک کے ایک ستون کیفی اعظمی کی ممبئی میں واقع قبر پر نصب کتبہ کو اکھاڑ دیا گیا اور قبر کا نشان مٹا دیا گیا ہے۔ کیفی اعظمی مشہور شاعر ونغمہ نگار مشہور اداکار شبانہ اعظمی کے والد اور مصنف و شاعر جاوید اختر کے خسر ہیں۔

واضح رہے کہ ممبئی کے شمال مغربی علاقہ اندھیری ورسوا میں واقع چار بجگه قبرستان 10 مئی 2002 ء کو انتقال کے بعد ان کی تدفین عمل میں آئی تھی اور اس قبرستان میں ان کے قبر پرکتبہ نصب تھا، جس پر ان کی غزل کا یہ شعر تحریر تھا،

خاروخس تو اٹھیں راستہ تو چلیں

میں اگر تھک گیا، قافلہ تو چلے

لیکن قبرستان ا تتظامیہ کمیٹی نے بی ایم سی کے قبرستان میں حال میں مرحوم کیفی اعظمی کی قبر سے اس کتبہ کو اکھاڑ دیا ہے اوراب قبر پر کتبہ نہ ہونے سے اس کا علم نہیں ہوتا ہے کہ کیفی اعظمی کی قبر کہاں ہے۔ اس بارے میں قبرستان کے منتظمین کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیتے ہیں۔

چند سال قبل جوہوقبرستان میں بھی واقع مشہور گلوکار محمد رفیع کی قبر پرسے بھی نصب کتبہ کو ہٹا دیا گیا تھا لیکن محمد رفیع فین کلب اور اہل خانہ کے احتجاج کے بعد دوبارہ کتبہ نصب کر دیا گیا ہے۔ ایک بار چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع چار بنگلہ قبرستان میں شاعر کیفی اعظمی کی قبر سے کتبہ اکھاڑ دیا گیا ہے۔

ممبئی کے ادبی و سماجی حلقوں میں اس پر کافی ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ معروف شاعر عبید اعظم اعظمی نے متعدل انداز میں کہاکہ قبرستان انتظامیہ نے ویسے تو دوسرے کتبوں کو بھی ہٹادیا ہے، لیکن کیفی اعظمی کے کتبہ کو یادگار کے طور پر رکھا جاسکتا تھا، کیونکہ وہ ایک نمایاں شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ہمیشہ حق و انصاف کی آواز بلند کی۔ اور مظلوموں کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔

واضح رہے کہ کیفی اعظمی کا تعلق اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ سے تھا لیکن بہرائچ شہر سے بھی گہرا تعلق تھا۔ کیفی کی ابتدائی تعلیم روایتی اردو، عربی اور فاری پر محیط تھی۔

غالباً 1943 ء میں کیفی اعظمی اپنے وطن اعظم گڑھ سے بمبئی اپنے ایک دوست کی دعوت پر آئے اور یہاں انہیں قریب دس سال کی جد و جہد کے بعد انہیں ہندی فلمی صنعت میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

1950ء کے عشرے میں ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء کی دعوت پر کیفی ایوت محل کے مشاعرے کے لیے بلائے گئے۔ شرکت کے لیے 80 روپے ہوئے۔ تاہم اس زمانے میں کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی پیدا ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ مشاعرے میں شرکت سے قاصر تھے مگر پیشگی رقم 40 روپے ان کی وقتیہ ضروریات کے کام آئے۔

کیفی نے منشاء سے خط لکھ کر معذرت خواہی کی اور ساتھ ہی پیشگی رقم کی واپسی کا وعدہ کیا۔ کیفی بنیادی طورپر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی قابل ذکر نظموں میں عورت ، اندیشه، نر تک کال ، حوصلہ تقیسم ، مکان ، بہروپی اور دوسرا بن باس شامل ہیں۔ ان کے مجموعات کلام آخرشب، آوارہ سجدے سرمایہ ہیں۔

کیفی اعظمی نے 1990 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے دوران یہ کوشش کی کہ ان کے گاؤں سے ایک اینٹ بھی اجودھیا نہ جائے اور انہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی ملی تھی۔وہ کیمونزم کے حامی رہے۔جوہو میں ان کے نام سے ایک باغیچہ منسوب کیا گیاہے اور ایم پی کی حیثیت سے فنڈ شبانہ اعظمی نے دیا تھا۔

a3w
a3w