مذہب

خدا کی امان میں

حضرت سالم بن عبداللہؒ حد درجہ محتاط اور زاہد تھے، آپ کے نزدیک مسلمان کا خون اتنا محترم تھا کہ مجرم مسلمان پر بھی ہاتھ نہ اٹھاتے تھے،

حضرت سالم بن عبداللہؒ حد درجہ محتاط اور زاہد تھے، آپ کے نزدیک مسلمان کا خون اتنا محترم تھا کہ مجرم مسلمان پر بھی ہاتھ نہ اٹھاتے تھے،

ایک مرتبہ حجاج بن یوسف نے آپ کو ایک ایسے شخص کے قتل کا حکم دیا جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں کے معاونین میں تھا، آپ تلوار لے کر مجرم کی طرف بڑھے اور پاس جاکر اس سے پوچھا: تم مسلمان ہو؟ اس نے کہا: ہاں میں مسلمان ہوں؛

لیکن آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اسے پورا کیجئے، آپ نے پوچھا: تم نے صبح کی نماز آج پڑھی ہے؟ اس نے کہا ہاں پڑھی ہے، یہ سن کر سالمؒ لوٹ گئے اور حجاج کے سامنے تلوار پھینک کر کہا:

یہ شخص مسلمان ہے آج صبح تک اس نے نماز پڑھی ہے اور رسول اللہ ا کا ارشاد ہے کہ: ’’جس شخص نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ خدا کی حفظ و امان میں آگیا۔ حجاج نے کہا:

’’ہم اس کو صبح کی نماز کے لیے تھوڑے ہی قتل کرتے ہیں؛ بلکہ اس لئے قتل کرتے ہیں کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معاونوں میں ہے‘‘۔

فرمایا: ’’اس کے لیے اور لوگ موجود ہیں جو عثمان کے خون کا انتقام لینے کے ہم سے زیادہ حقدار ہیں‘‘۔

سالمؒ کے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا: ’’سالم نے سمجھداری سے کام لیا‘‘۔ (طبقات ابن سعد ج:۵/۱۴۵)