دہلی

سپریم کورٹ میں بی بی سی پر مکمل امتناع کی درخواست خارج

سپریم کورٹ نے آج ایک درخواست کوخارج کردیا جس کے ذریعہ ہندوستان میں برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن(بی بی سی) پر امتناع کی گزارش کی گئی تھی۔ عدالت نے کہاکہ یہ مکمل طورپر غلط رائے قائم کی گئی ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج ایک درخواست کوخارج کردیا جس کے ذریعہ ہندوستان میں برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن(بی بی سی) پر امتناع کی گزارش کی گئی تھی۔ عدالت نے کہاکہ یہ مکمل طورپر غلط رائے قائم کی گئی ہے۔

متعلقہ خبریں
بی بی سی ڈاکیومنٹری اسکریننگ کیلئے دوطلباء کودہلی یونیورسٹی کی نوٹس
برج بہاری قتل کیس، بہار کے سابق ایم ایل اے کو عمر قید
بھگوان کو تو سیاست سے دور رکھیں: سپریم کورٹ
تروپتی لڈو تنازعہ، سپریم کورٹ میں کل عرضیوں پر سماعت
سپریم کورٹ میں کل آر جی کار میڈیکل کالج کیس کی سماعت

جسٹس سنجیوکھنہ اورجسٹس ایم ایم سندریش نے ہندوسینا کے صدروشنوگپتااورایک کسان وریندرکمار کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے یہ احکام صادر کئے۔ بنچ نے کہاکہ یہ رٹ درخواست مکمل طورپر غلط تصور پر مبنی ہے اورمیرٹ سے عاری ہے اسی لئے اسے خارج کیاجاتاہے۔

درخواست میں یہ الزام عائد کیاگیا تھاکہ بی بی سی ہندوستان اورحکومت ہند کے تئیں جانبداری برت رہی ہے‘ کہاگیا تھاکہ وزیراعظم نریندرمودی پراس کی دستاویزی فلم عالمی سطح پرہندوستان اوراس کے وزیراعظم کے عروج کے خلاف ایک گہری سازش کا نتیجہ ہے۔

درخواست میں کہا گیاکہ گجرات میں 2002کے تشدد سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم جس میں وزیراعظم نریندرمودی کوماخوذ کیاگیاہے نہ صرف مخالف نریندرمودی پروپیگنڈہ کی عکاسی کرتی ہے بلکہ ان کی شبیہہ کوداغدار کرنے کیلئے اسے براڈکاسٹ کیاگیاہے۔

بی بی سی کایہ مخالف ہندوازم پروپیگنڈہ ہے تاکہ ہندوستانی دستورکے سماجی تانے بانے کوتباہ کیاجاسکے۔ سپریم کورٹ نے 3فروری کو علحدہ درخواستوں پر مرکزاوردیگرسے جواب طلب کئے تھے جن میں دستاویزی فلم کو مسدودکرنے اس کے فیصلہ کوچالینج کیاگیا تھا۔

بزرگ صحافی این رام‘ ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہواموئترا اورجہدکار و وکیل پرشانت بھوشن کے علاوہ ایڈوکیٹ ایم ایل شرماکی درخواستوں پر عدالت عظمیٰ نے یہ نوٹس جاری کی تھی۔

سپریم کورٹ نے3 فروری کومرکزی حکومت کو یہ بھی ہدایت دی تھی کہ وہ بی بی سی دستاویزی فلم کوروکنے اس کے فیصلہ سے تعلق رکھنے والے اصل ریکارڈس بھی پیش کرے۔ حکومت نے21۔جنوری کو کئی یوٹیوب ویڈیوز اور ٹوئٹر پوسٹس کومسدودکرنے کی ہدایات جاری کی تھیں جن کے ذریعہ متنازعہ دستاویزی فلم کے لنکس شئیر کئے گئے تھے۔

a3w
a3w