عتیق اور اشرف قتل کیس کی تحقیقات، سہ رکنی ایس آئی ٹی کی تشکیل
سرغنہ سے سیاستداں بنے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے پریاگ راج میں قتل کی تحقیقات کے لیے اترپردیش پولیس نے ایک سہ رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ پولیس کے ایک سینئر عہدیدار نے آج یہ بات بتائی۔

لکھنؤ: سرغنہ سے سیاستداں بنے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے پریاگ راج میں قتل کی تحقیقات کے لیے اترپردیش پولیس نے ایک سہ رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ پولیس کے ایک سینئر عہدیدار نے آج یہ بات بتائی۔
اترپردیش ڈائرکٹر جنرل آف پولیس آر کے وشوا کرما کے جاری کردہ ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اسپیشل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس پرشانت کمار نے بتایا کہ پریاگ راج کے کمشنر آف پولیس کی ہدایت پر ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔ معیاری تحقیقات کا تیقن کرنے اور مقررہ وقت میں کارروائی کے لیے سپروائزرس کی ایک سہ رکنی ٹیم بھی تشکیل دی گئی ہے۔
مذکورہ ٹیم کے سربراہ پریاگ راج کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ہیں۔ دیگر دو ارکان میں پریاگ راج کے کمشنر آف پولیس اور لکھنؤ میں موجود فارنسک سائنس لیباریٹری کے ڈائرکٹر شامل ہیں۔
عتیق اور اشرف جنہیں جاریہ سال فروری میں اومیش پال کے قتل کے سلسلہ میں گرفتار کیا گیا تھا کو ہفتہ کی رات دیر گئے تین افراد خود کو صحافی ظاہر کرتے ہوئے انھیں گولی مار کر ہلاک کیا۔ آئی اے این ایس سے موصولہ اطلاع کے بموجب سرغنہ سے سیاستداں بنے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے پولیس تحویل میں قتل کے ایک دن بعد سپریم کورٹ میں پیش کردہ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ قتل کی تحقیقات کے لیے سابق سپریم کورٹ جج کی زیرصدارت ماہرین کی کمیٹی تشکیل دینے ہدایت جاری کی جائے۔
ایڈوکیٹ وشال تیواری کی جانب سے اتوار کے دن عدالت ِ عظمیٰ میں پیش کردہ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ اترپردیش میں 2017ء سے پیش آئے 183 انکاؤنٹرس کی انکوائری کے لیے ایک آزادانہ ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ عتیق احمد اور ان کے بھائی کو تین حملہ آور جو خود کو صحافی ظاہر کیے گولی مار کر ہلاک کیے، جب کہ پولیس اسکارٹ انہیں ہفتہ کی رات طبّی معائنہ کے لیے پریاگ راج کے ایک میڈیکل کالج لے جارہا تھا۔
درخواست گزار نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پولیس تحفظ میں احمد اور ان کے بھائی کا قتل جیسی پولیس کی کارروائی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، کی تحقیقات کی جائیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ فرضی پولیس انکاؤنٹروں میں ماورائے قانون ہلاکتوں کو قانون میں کوئی مقام نہیں اور مزید استدلال پیش کیا گیا کہ جمہوری سماج میں آخری فیصلہ کرنے کی پولیس کو اجازت نہیں دی جاسکتی، کیوں کہ سزا صادر کرنے کا اختیار صرف عدلیہ کو حاصل ہے۔