مضامین

….یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

امریکہ کے تجارتی ریسرچ فرم ہنڈن برگ کی اڈانی کے خلاف پول کھول رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی ایک بھونچال سا آگیا ہے۔حکومت بظاہر چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہی ہے ، لیکن ایسا ہے نہیں ،پریشانی اس لیے بڑھی ہوئی ہے کہ معاملہ دوست کا ہے ۔ جس کا اثر ابھی پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن میں دیکھنے کو ملا ۔اس اجلاس میں کئی ایسی انہونی اور انوکھی باتیں سننے کو ملی ہیں کہ ہر شخص حیران و پریشان ہے۔توقع تھی کہ ملک کے ذمّہ دار عہدہ پر فائز شخص ملک کے اس مالی بحران پر بجٹ سیشن میں اپنی ذمّہ داری کو پورا کرتے ہوئے ایسا جواب دیں گے کہ ملک کے عوام کسی حد تک مطمئن ہو جائیں ۔ راہول گاندھی کے سات سوالات میں صرف ایک سوال کہ ” گوتم اڈانی 2014 ءمیں امیروں کی فہرست میں 609 ویں نمبر پر تھا، وہ وزیراعظم ہند نریندر مودی کی دوستی یاری سے کچھ ہی برسوں میں دوسرے نمبر پر کیسے پہنچ گیا؟ “ ہنڈن برگ نے جو کچھ انکشاف کیا ہے ، اس میں کتنی صداقت ہے ؟ سوال تھا 2014 سے 2022-23 میں حیرت انگیز بلکہ ناقابل یقین حد تک گوتم اڈانی کے دولت مند بننے کا ۔ لیکن ایسا لگا جیسے وزیراعظم نے راہول گاندھی اور دوسرے حزب مخالف ممبران پارلیمنٹ کا سوال سنا ہی نہیں اور سنے بغیر ہی وہ شروع ہو گئے کہ 2004 سے2014 ءمیں ملک کے اندر کس قدر بد عنوانیاں ہوئیں۔ بتانے لگے کہ وہ دہائی سب سے زیادہ گھوٹالوں کی دہائی رہی۔کشمیر سے کنیا کماری تک دہشت گردی کا سلسلہ جاری تھا ۔ ہر شہری غیر محفوظ تھا ۔دنیا میں ملک کی آواز اتنی کمزور تھی کہ سننے کو کوئی تیار نہیں تھا ۔ انھوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ میں انتظار کرتا ہوں کہ کوئی ہم پر تنقید کرے کیونکہ جمہوریت میں تنقید کی اہمیت ہوتی ہے ۔مگر انھوں (حزب مخالف )نے یہ موقع بھی گنوا دیا،مجھے گالیاں دینے میں ۔ وزیراعظم نے اپنی اس ”تاریخی“ تقریر میں پارلیمنٹ میں یہ بھی بتایا کہ انھیں ایک سو¿ چالیس کروڑ ہندوستانیوں کا آشیرواد حاصل ہے ،جو ان کے لیے ”سرکچھا کوچ “ ہے ۔ اس پوری تقریر میںانھوں نے ایک باربھی اپنے دوست اور ملک کا نام ”روشن “ کرنے والے گوتم اڈانی کا نام لینے کی زحمت نہیں کی ۔ کم از کم چین کی در اندازی پر جو ” تاریخی جملہ“ ادا کیا تھا۔ایسا ہی جملہ ادا کر تے ہوئے اپنے ”اندھ بھکتوں“ کو تو مطمئن کر دیے ہوتے کہ جب مودی جی نے کہہ دیا ہے کہ اڈانی نے کسی طرح کا گھپلہ نہیں کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اڈانی نے کوئی گھوٹالہ نہیں کیا ہے ، لیکن افسوس کہ ان کے اندھ بھکت بھی اسی طرح کے کسی جملے کا انتظار کرتے رہ گئے ۔ وزیراعظم کی اس بات سے پل بھر کے لیے ہم سب متفق بھی ہوجائیں کہ 2004 ءسے 2014 ءکے درمیان کی دہائی گھوٹالوں کی دہائی رہی ، لیکن حضور یہ تو بتائے کہ 2014 ءکے بعد جے شاہ سے لے کر بی جے پی کے تمام ”لیڈروں “ کو وہ کون سا جادوئی چراغ حاصل ہوگیا کہ ہر کوئی دولت کے انبار لگا رہا ہے اور اس انبار سے انکم ٹیکس، ای ڈی ، سی بی آئی وغیرہ جیسے شعبوں کو کوئی شکایت نہیں ہے ۔ انتہا تو یہ ہے کہ بجٹ سیشن میں وزیر مالیات نے بھی ملک کے اتنے بڑے گھوٹالے پر خاموشی اختیار کئے رہیں بلکہ حزب مخالف کے ایک ممبر نے اس گھوٹالے کی یاد دہانی کرانے کی کوشش کی تو ان کی نصیحت تھی کہ پہلے ڈیٹول سے مُنھ صاف کرکے آو¿ ،یعنی اڈانی کی بدعنوانی کا ذکر کرنے سے قبل ممبر پارلیمنٹ کو اپنا چہرہ ڈیٹول سے صاف کرنا ضروری ہے ۔ المناک حقیقت یہ ہے کہ اب پارلیمنٹ کو بھی بہت ساری سرکاری ایجنسیوں کی طرح بے وقعت اور بے اثر ہی نہیں بلکہ یرغمال بنا لیا گیاہے ۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ راہول گاندھی جیسے کانگریس کے بڑے لیڈر کی پارلیمنٹ میں کہی گئی باتوں کو ریکارڈ سے حذف کر دیا جائے ۔ پارلیمنٹ پر سارے ممبران کا حق برابر کا ہے ۔ ممبران اگریہاں عوامی مشکلات کا ذکر نہیں کریں گے ، عوام کی اشک شوئی کی بات نہیں کریں گے تو کہاں کریں گے۔ یہاں وہ مسئلہ کو اٹھائیں گے اور ان کے تدارک کی بھی باتیں ہوں گی، لیکن افسوس حکومت اپنے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے ، صرف من مرضی کی باتیں کی جا سکتی ہیں ۔اب تو جیسی خبریں آرہی ہیں کہ راہول گاندھی کے پارلیمنٹ میںاڈانی پر سوال پوچھے جانے کی پاداش میں مراعات شکنی کی نوٹس دی جانے والی ہے ، جس کے جواب میں راہول گاندھی نے کہا ہے کہ جب معاملہ اتنا متنازعہ ہے تو پھر حکومت کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی پر اعتراض کیوں ہے۔پارلیمنٹ کے اندر ہونے والی غیر جمہوری اور غیر آئینی حرکت پر اپنی خفگی بلکہ برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس صدر اور سینئر لیڈر ملکا رجن کھرگے نے شدید تنقید کی اور کہا کہ اس سیشن میں وزیر اعظم نے صرف انتخابی تقریر کی ، حزب مخالف کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔ پارلیمنٹ میں آزادی¿ اظہار رائے پر قدغن کی کوشش گئی، تقریر کے کئی حصوں کو حذف کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ اڈانی کا نام لیا جانا بھی گوارہ نہ ہوا ، ہنڈن برگ کی رپورٹ پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے مطالبہ کو بھی ریکارڈ سے خارج کر دیا گیا ہے ۔ کانگریس لیڈر اور ترجمان جئے رام رمیش نے بجٹ سیشن میں ہنڈن برگ پر اٹھائے گئے سوال پر وزیر اعظم کی چُپی پرطنز کیا اور تقریر کے دوران انھیں اپنی تعریف میں آسمان زمین کے قلابے ملانے کے مترادف قرار دیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم اپنی پوری تقریر کے دوران صرف اپنی حصولیابیوںکو گناتے رہے اور یہ بھی کہا کہ میں اکیلا سب پر بھاری ہوں اور یہ بھی ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت کے باعث ہی دنیا میں اس ملک کے وقار میں اضافہ ہوا ہے ۔ اب اس خوش فہمی کو کیا کہا جائے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ ہو یا پھر بی بی سی لندن کی گجرات سانحہ پر بنی فلم سے ملک اور ملک کے وزیر اعظم کا وقار بڑھا ہے تو اسے کم از کم اندھ بھکت تو ضرور ہی قبول کریں گے ۔ وزیر اعظم ہندوستانیوں کے جن ایک سو¿ چالیس کروڑ عوام کے آشیرواد اور ان کے ذریعہ دی جانے والی انھیں ”سرکچھا کوچ“( حفاظتی ڈھال) کی بات کر رہے ہیں ۔ وہ عوام کس قدر پریشان ہیں اور کربناک زندگی گزار رہے ہیں ۔ کاش ایک پل کے لیے بھی یہ سوچتے ۔ اپنے دور اقتدار کی حصولیابی کا ذکر کرتے ہوئے کاش یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے کہ جس وقت یعنی 2014 ءمیں عالمی سطح پرملک بھوک مری کے معاملے میں صرف 55 ویں نمبر پر تھا ان کے اقتدار میں ملک بھوک مری کے معاملے میں 121 کے مقابلے 107 ویں پائدان پر پہنچ گیا ہے ۔ ”آشیرواد “ دینے والے اور سرکچھا کوچ بننے والوں میں سے نصف لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں سے ہی نصف تقریباََ 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دے کر کسی طرح زندہ رکھنے کی کوشش کیا جارہی ہے۔ یہ کسی بھی لحاظ سے حصولیابی نہیںہے بلکہ کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیے شدید ناکامی ہے ۔وزیراعظم مودی جی بجٹ سیشن میں مسلسل اپنی حصولیابی گناتے رہے اور کانگریس کی ناکامیوں کا موازنہ 2004 سے2014 تک کا کرتے رہے ۔ کاش کہ وہ ایک نظر اس انڈیکس پر بھی ڈال لیتے کہ 2014 ءکے بعد سے ان کے دور اقتدار میں ملک کی حالت کس قدر بد سے بدتر ہو گئی ہے ۔ یہ چند اعداد و شمار ملاحظہ کریں ۔ صحت کے معاملے میں ملک 2014 ءمیں جہاں 85 پر تھا، آج 146 ویں نمبر پر ہے ، انسانی آزادی کے معاملے میں 2014 ءمیں 106 پر تھا آج 150 ویںنمبر پر ہے ، ماحولیاتی تحفظ میں ملک 2014 ءمیں 155 نمبر پر تھا، آج 180ویں مقام پر آنسو بہا رہا ہے ، اسی طرح بار بار جمہوریت کی دہائی دینے والے یہ بھی سن لیں کہ 2014 ءمیں ملک کی جمہوریت کو33واں مقام حاصل تھا ،وہ آج 93نمبر پر پہنچ کر شرمسار ہو رہی ہے ، صحافتی آزادی کو تو یرغمال ہی بنا لیا گیا ہے ، جو آزادی¿ صحافت 2014ءمیں 140ویں مقام پر برقرار تھی، وہ آج 180ممالک کے مقابلے 150 ویں نمبر پر گِر کر کراہ رہی ہے۔ اور تو اورہمارا ملک اس وقت 1,31,100 ملین ڈالر کے قرض ڈوبا ہوا ہے ،ساتھ ہی ساتھ اگر فوربس میگزین کی رپورٹ پر بھروسہ کیا جائے تو اس وقت مودی سرکار ایشیا کی سب سے کرپٹ حکومت ہے۔ یہ ہے آپ کی حکومت کی حصولیابی کا بہت ہی چھوٹا سا نمونہ ۔ اب ایسے حالات میں بھی اگر یہ سمجھانے کی کوشش کریںکہ ان کی وجہ سے ہی اس ملک کا وقار بیرون ممالک میں بڑھا ہے تو اسے مضحکہ خیز ہی کہا جائے گا ۔ اس وقت ملک انتشار ، خلفشار ، بد امنی ، منافرت ، بھوک ، غربت ، بے روزگاری کے جن نا خوشگوار حالات سے نبرد آزما ہے ، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
پارلیمنٹ میں اصل سوال سے وزیراعظم کا راہ فراراختیار کرنا کئی طرح کے سوال تو کھڑا کرتا ہی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ سے نہ صرف ملک کی معیشت کی بربادی کی پول کھلی ہے بلکہ ملک کے کروڑوں لوگوں کا مالی استحکام متزلزل ہوا ہے، سرمایہ کاروں کو کئی لاکھ کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے ۔ ایل آئی سی اور اسٹیٹ بینک جیسے نہ جانے کتنے ادارے مالیاتی خسارے سے اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہے ہیں ، ملک کی شبیہ بھی داغدار ہورہی ہے ۔ ایسی حالت میںہر جانب سے سوال کا طوفان کھڑا ہونا لازمی ہے ۔ ایسے وقت میں بے اختیار شہاب جعفری کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ
تو ادِھر اُدھر کی بات نہ کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
ملک کی معیشت اس وقت تباہی کے اس دہانے پر ہے جس پر گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ماہرین اقتصادیات اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ عالمی سطح پر اثر رکھنے والی کمپنیاں مثلاََ بلو مرگ ، ویلتھ فنڈ ، موڈیز وغیرہ کے ذریعہ اڈانی کی ریٹنگ کم کیے جانے اور خارج کیے جانے کی خبریں بھی مسلسل آ رہی ہیں ۔ بینکوں کے خالی ہوتے خزانے اور اس پر حکومت کے ”خاص“ لوگوں کے ذریعہ اربوں روپئے کے گھوٹالے ۔ ہنڈن برگ کے ایسے ایسے انکشاف سامنے آرہے ہیں اور پرتیں کھل رہی ہیں، اس سے ہر شخص انگشت بدنداں ہے۔ابھی نہ جانے کتنی پرتیں کھلیں گی، دیکھا جائے۔حیرت ہوتی ہے یہ جان کرکہ گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی اور ان کے قریبی معاونین نے چھوٹے ممالک میں درجنوں ایسی فرضی کمپنیاں بنا رکھی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔سراسر یہ جعلی کمپنیاںہیں جو کہ ایسے ممالک میں قائم کی گئی ہیں جو ٹیکس چوری کی جنّت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔یہی جعلی کمپنیاں اپنے ملک میں گوتم اڈانی کی کمپنیوں میں اربوں روپے کا سرمایہ لگاتی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہی کمپنیاں شیئر کی بدعنوانیوں میں بھی پوری طرح ملوث رہتی ہیں جو کہ اڈانی کی ایما پر ہوتا ہے ۔ ہنڈن برگ کا یہ بھی الزام ہے کہ جس فرم سے گوتم اڈانی اپنی تجارتی کمپنیوں کا آڈٹ کراتے ہیں،اس فرم میں صرف گیارہ لوگ کام کرتے ہیں جب کہ اڈانی کی تقریباً دو سو تجارتی کمپنیاں ہیں ، جن میں وہ نہ جانے کتنے ہوائی اڈوں اور بندر گاہوں کے مالک ہیں ۔حال ہی میں گجرات میں اڈانی کی بندر گاہ پر بیرون ملک سے لائی جانے والی اربوں روپئے کی منشیات ”غلطی“ سے پکڑ میں آ گئی تھی۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ صرف گیارہ لوگ کس طرح اربوں کھربوں کا آڈٹ کرتے ہوں گے ، یہ تو کوئی جادوئی کارنا مہ ہی ہو سکتا ہے ،یا پھر کسی جن کا کارنامہ ممکن ہے ۔ اڈانی کے ان تمام نقصانات کی بھرپائی کی طرح طرح کی کوششیں اندر ہی اندر کی جارہی ہیں ۔ اڈانی کی ساکھ بچانے اور دوسرے سرمایہ کاروں کے اندر اعتماد بحال کرنے کے لیے اپنے گودی میڈیا کو کروڑوں روپئے کے صفحہ اوّل پر پورے صفحہ کا رنگیں اشتہاردے کر ابھی ابھی لکھنو¿ میں سہ روزہ گلوبل انوسٹرس سمٹ کا انعقاد کیا گیا ہے ۔ جس کا افتتاح کرتے ہوئے وہاں بھی ”بڑ ے بول“ میں یہ اظہار کیا کہ ”ہندوستان دنیا کے لیے امید کی نئی کرن ہے “ اور تو اور یہ بھی خواب دکھانے میں پیچھے نہیں رہے کہ” ہندوستان کا روشن مستقبل ہی دنیا کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔“ دراصل یہ سمٹ اور یہ انداز تخاطب کی وجہ ہے کہ بلو مبرگ نے بڑے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ”اڈانی گروپ کے 108 ارب ڈالر کے بحران کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا ہے ۔“ اب ایسے بدتر حالات میں بھی کوئی روشن مستقبل کی ضمانت دے تو اسے احمقوں کی جنت کا باشندہ ہی کہا جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں برسراقتدار رہنے کی چاہت تو بہت ہے لیکن حکمرانی میں وہ مسلسل پچھڑتے جا رہے ہیں،جس پر انھیں بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭