توہین رسالتؐ کے واقعات اور لمحہ فکر
حالیہ دنوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک سربراہ نو پور شرما نے ایک ٹی وی ڈیبیٹ کے دوران رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی حرم محترم ام المومنین حضرت عائشہؓ کے تئیں ایسے اہانت آمیز الفاظ کہے تھے جس سے نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کو بڑی کوفت پہنچی تھی۔

محمد سلمان قاسمی محبوب نگر
خادم تدریس: ادارہ اشرف العلوم ٹرسٹ حیدرآباد
حالیہ دنوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک سربراہ نو پور شرما نے ایک ٹی وی ڈیبیٹ کے دوران رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی حرم محترم ام المومنین حضرت عائشہؓ کے تئیں ایسے اہانت آمیز الفاظ کہے تھے جس سے نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کو بڑی کوفت پہنچی تھی پھر بین الاقوامی سطح پر مظاہروں اور احتجاجات کے نتیجے میں صرف اتنا ہوا کہ حکومت ہند نے اس عورت لعنۃ اللہ علیہا کو اپنی پارٹی سے برطرف کرکے انڈر گراؤنڈ کردیا،حالانکہ ہندوستان میں دوسری بڑی شہریت مسلمانوں کی ہے، مرکزی حکومت کو مسلمانوں کے مذہبی اقدار اور ملی احساسات کا لحاظ کرتے ہوئے جو سزا اس کی تجویز کرنی تھی بالکل بھی نہیں کی،اس پر مستزاد اس کو اریسٹ کیے بغیر الٹا پروٹیکشن دیا گیا،اس المناک واقعے نیز حکومت کے ناروا رویہ سے ابھی مسلمانوں کے دلوں پر غم کے اثرات تازہ ہی تھے کہ کچھ یوم قبل 22 اگست 2022 کو رات 11 بجے ہمارے شہر حیدرآباد گوشہ محل علاقے کے بھاجپا ہی کے ایک لوک سبھا ممبر راجہ سنگھ نے جو پہلے سے ہی اپنی اسلام دشمنی اور شر پسندی میں بد نام زمانہ ہے ایک بیانیہ ویڈیو کلپ جاری کیا جس میں اس نے رحمت للعالمین سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا جس قدر نازیبا الفاظ میں تذکرہ کیا اور امہات المومنین حضرت عائشہؓ،حضرت زینبؓ نیز آپ کی ازدواجی زندگی اور متبنئ رسول حضرت زیدؓ کے بابت جو گستاخانہ کلمات کہے اور جو ناشائستہ زبان استعمال کی اس سے پرانا زخم تازہ اور رنجیدہ قلوب مزید افسردہ ہو گئے،ستم بالائے ستم یہ کہ اس قدر شر افزا اور انتشار برپا کرنے والے بیانات کے باوصف حکومت ان مجرموں کو سزا کے بجائے تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
قرابت رسولؐ کے تقاضے:
امت مسلمہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان علاقہ اور نسبت کو بیان کرتے ہوئے باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: "النبي اولى بالمؤمنين من انفسهم وازواجه امهاتهم "(الاحزاب رقم الآية:۶) ترجمہ: نبیؐ ایمان والوں کے لیے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں، اور ان کی بیویاں ایمان والوں کی مائیں ہیں؛آیت کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو جتنی بھی قرابتوں اور نسبتوں سے واسطہ پڑتا ہے ان میں سب سے اقرب اور سب پر مقدم وہ تعلق ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ قائم ہے حتی کہ خود ایک ایمان والے کو اپنی ذات سے اس قدر قرب و تعلق نہیں جتنا رسول اللہ کو حاصل ہے،چنانچہ مفسر قرآن حضرت مفتی شفیع صاحب عثمانی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومنین سے تو ان کے نفس اور ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں کیونکہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہنچاتا ہے اور کبھی نقصان،کیوں کہ اگر نفس اچھا ہے اچھے کاموں کی طرف چلتا ہے تو نفع ہے اور اگر برے کاموں کی طرف چلنے لگے تو خود اپنا نفس ہی اپنے لئے مصیبت بن جاتا ہے،بخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کی تعلیم نفع ہی نفع اور خیر ہی خیر ہے،اور اگر اپنا نفس اچھا بھی ہو اور نیکی ہی کی طرف چلتا ہو پھر بھی اس کا نفع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفع کے برابر نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کو تو خیر و شر اور مصلحت و مضرت میں مغالطہ بھی ہو سکتا ہے،اور اس کو مصالح و مضار کا پورا علم بھی نہیں،بخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ نہیں اور جب نفع رسانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہیں تو ان کا حق ہمارے اوپر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ حق یہی ہے کہ آپ کے ہر کام میں اطاعت کریں اور آپ کی تعظیم و تکریم تمام مخلوق سے زیادہ کریں۔(معارف القرآن: ۷/۱۰۰۔۱۰۱)
پھر آگے آیت میں فرمایا گیا”وازواجه امهاتهم” یعنی جس طرح آپ علیہ السلام روحانی باپ ہونے کے سبب ہمارے اپنے حقیقی باپوں بلکہ خود ہماری اپنی ذاتوں سے زیادہ محترم و مقرب ہیں تو اسی طرح آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی ادب و احترام اور رابطہ و تعلق میں ہماری اپنی ماؤں کی طرح ہیں، جس طرح انسان اپنے یا اپنے والدین کے کیریکٹر پر داغ نمائی سے برگشتہ اور حواس باختہ ہوجاتا ہے اس کو بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ غضب ناک اور کبیدہ خاطر ہونا چاہئے جب کوئی ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے ازواج کی شان اقدس میں دریدہ دہنی کرے، اور ان کے نظیف و پاک ناموس کو داغدار کرے۔
ناموس رسالت اور عصمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا حساس و نازک ترین مسئلہ ہے جس سے تمام عالم کے مسلمانوں کی روحیں جڑی ہوئی ہیں،ایک سچا مسلمان اور محب صادق اپنی جان دینا گورا کرسکتا ہے،مگر شان نبوت کی حرف برابر تنقیص کا ہرگز تحمل نہیں کرسکتا،ایک مرتبہ امام دارالہجرہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے خلیفہ ہارون رشید نے پوچھا کہ اگر دنیا میں کہیں شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی ہوجائے تو ایسے وقت میں امت مسلمہ کو کیا کرنا چاہیے؟ میں نے سنا ہے کہ اہل عراق نے اس کو کوڑے لگانے کا فتویٰ دیا ہے،حضرت امام مالک نہایت غضبناک ہوگئے اور شدت جذبات اور وفور عشق میں ایسا ہوش ربا اور عشق افزا جملہ کہا جس کو ہر امتی اپنے دل میں ثبت کرلینا چاہیے، فرمایا: ما بقاء الامة بعد شتم نبيها؟ من شتم الانبياء قتل؛ یعنی نبی کو گالی دی جائے اور امت کوئی کارروائی نہ کرے تب تو اس کو جینے کا کیا حق ہے،مرجانا چاہیے،سنو! جو شخص نبی کو گالی دے اس کو قتل کر دینا چاہیے (کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفی: ۵۴۵؍۲)
یقیناً ایسا ہی ہے کہ آپ علیہ السلام کی ذات مبارکہ کہ مجروح کیا جاتا رہے،ازواج مطہرات کے بارے میں ہفوات بکی جانے لگے اور ہماری رگ حمیت نہ پھڑکے،ہم بے حسی کے ساتھ حسب معمول زندگی بسر کرنے لگے، خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں،تو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے، سوچنا چاہیے کہ کس قدر اسفل درجہ ہماری ایمانی کیفیت ہے، ہماری ایمانی غیرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت و نسبت کا تقاضہ ہے کہ حالیہ پیش آمدہ واقعہ کے پیش نظر ہم ملعون راجہ سنگھ اور اس جیسے گستاخوں کے خلاف جمہوریت کا لحاظ رکھتے ہوئے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آواز اٹھائیں، اعداء اسلام کو کسی بھی طرح کا موقع فراہم کیے بغیر حکومت تلنگانہ، مرکزی حکومت اور عدلیہ پر پریشر ڈالیں کہ راجہ سنگھ کے خلاف کوئی سخت کاروائی کرے بلکہ عالمی پیمانے پر مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچانے والے اس سنگین مسئلے پر قتل کی کڑی سزا کا قانون بنانے کا مطالبہ کریں تاکہ پھر کبھی کسی بدبخت دشمن خدا کو اس کی ہمت تو کیا خیال بھی نہ آئے۔
ایک ضروری انتباہ
غور طلب بات اور ہم سب کے لیے لمحہ فکر یہ ہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے برسر اقتدار پارٹی ہماری ریاست تلنگانہ میں ہندو مسلم کا کھیل کھیل رہی ہے مذہبی جذبات کو ابھار کر ہندؤوں اور مسلمانوں میں انتشار و تفریق ڈالنا چاہتی ہے اسی بنیاد پر مکمل کوشاں ہے کہ تلنگانہ میں اپنی حکومت قائم کرے، بار بار امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے حیدرآباد کے دورے بھی اسی جانب مشیر ہیں،لیکن تلنگانہ میں سیکولر ذہنیت والا طبقہ زیادہ رہنے کے سبب ان کو اپنے مشن یعنی "ہندو یونیٹی” قائم کرنے میں عوام سے جو رسپانس مطلوب تھا حاصل نہیں ہوا تو اس تناظر میں عین ممکن ہے کہ انہوں نے پوری پلاننگ کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ رچا ہو کہ راجہ سنگھ جیسے بد خو کو ورغلایا کہ وہ ایسا بیان نشر کرے جو مسلم طبقے میں آتش زنی کا کام کرے اور ایسا فساد برپا ہو کہ ہندو مسلم دو حصوں میں ڈیوائڈ ہو جائیں،مسلمانوں کو سب سے زیادہ برانگیختہ کرنے والا موضوع ناموس رسالت سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا جس کا انہوں نے ماضی قریب میں بھی مشاہدہ و تجربہ کیا ہے چنانچہ راجہ سنگھ کا راتوں رات حیات نبویؐ کو داغدار کرنے والا اسٹیٹمنٹ دینا پھر انسٹنٹ ریاکشن کے ساتھ علی الصبح گرفتاری اور اسی دن شام تک رہائی ایک سازش اور پری پلان گیم معلوم ہوتا ہے،نتیجتاً یہی ہوا کہ حیدرآباد کے سیکولر ہندو بھی مذہبی ایموشنس کی بنا پر اب مشتعل ہو چکے ہیں کمنٹس سیکشن، ٹویٹس اور سوشل میڈیا پر بدبخت کی رہائی کی خوشیاں منا رہے ہیں اور مسلمانوں کو للکار رہے ہیں،جیسا کہ بات واضح ہے کہ برسراقتدار پارٹی کا سارا کنٹرول درپردہ آر ایس ایس کے زیر دست ہے اور آر ایس ایس ملک میں شاطرانہ طور پر یہود کی بد نام زمانہ اور کامیاب پالیسی Divide and Rule کے نہج پر کام کر رہی ہے کہ ہندؤوں اور مسلمانوں کو لڑاکر ملک میں اپنا سکہ جما سکے،اس تنبیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمان ہوش کے ناخن لیں اور غور کریں کہ ریاست کی سیاسی فضا کس سمت ہے اور اس پس منظر میں ہم کو مستقبل کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
نیز باہوش رہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے نوجوان فرط جذبات میں کوئی ایسی حرکت کردیں جس کا خمیازہ سارے خاندان اور ملت کو بھگتنا پڑے، ان کشیدہ حالات کے پیش نظر تلنگانہ و حیدرآباد کے عوام کو ہدایت دیتے ہوئے مشفقی و محترمی حضرت اقدس مولانا عبدالقوی صاحب متعنا اللہ بطول حیاتہ نے اپنے زرخیز سلسلہ اشرف المعارف نمبر 202 میں ایک بہترین اور قیمتی بیان فرمائی ہے، لکھتے ہیں: ریاست کے مسلمانوں سے دست بستہ عرض ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھیں،قانون کو ہاتھ میں نہ لیں جواب میں بدزبانی یا ان کے بڑوں کی اہانت نہ کریں، اسلامی تعلیمات کو ملحوظ رکھیں،ایک جاہل بے تہذیب شخص کی بدزبانی ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دارین کو نقصان نہیں پہنچا سکتی مگر ہماری نا عاقبت اندیشی اس کا سر اور اونچا کر دے سکتی ہے،حلم و صبر کے ساتھ قانون کا راستہ اختیار کریں ورنہ اس کا تو کچھ نہ بگڑے گا مگر قانون شکنی اور نقض امن کا بھی ٹھیکرا ہمارے ہی سر پھوڑا جائیگا۔
٭٭٭