سیاستمضامین

LAND TITLING ACT-2022 نوٹ بندی اور CAA سے زیادہ خطرناکرجسٹریشن قانون کی اہمیت ختم۔ آپ کو آفس جاکر ثابت کرنا ہوگا کہ آپ اپنی جائیداد کے مالک ہیں

٭ کوئی عہدیدار آپ کے گھر نہیں آئے گا اور نہ ہی نوٹس آئے گی۔ ٭ جس طرح CAA میں شہریت ثابت کرنے کا لزوم تھا ‘ اس طرح اب ملکیت ثابت کرنے کا لزوم ہے۔ ٭ اگر مقررہ عہدیدار آپ کی ملکیت تسلیم نہ کرے تو آپ اتھاریٹی کے روبرو اپیل کرسکتے ہیں۔ ٭ شہری رہائشی جائیدادوں پر سیلنگ قانون لاگو کیا جاسکتا ہے۔ ٭ شہری جائیدادوں کو بحقِ سرکار ضبط کرلینا قانون کا اصل مقصد ہوسکتا ہے۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

متذکرہ بالا قانون جس پر بحث کی جارہی ہے ‘ ایک بے حد خطرناک قانون ہے جو صرف ایک ایسی حکومت نافذ کرسکتی ہے جس کے ارادے اور نیت اپنے شہریوں کے تئیں نیک نہیں ہیں۔ اس قانون کے اقتباسات پر بحث کرنے سے پہلے قارئین کرام سے خواہش کی جاتی ہے کہ وہ اس قانون کے بارے میں Googleسے مشورہ کریں اور جوں ہی آپ کے ٹیلی فون کے اسکرین پر یہ قانون نظر آئے مزید یہ کیجئے کہ گوگل پر جاکر اس قانون کا ترجمہ طلب کیجئے اور آنِ واحد میں آپ سارا قانون اپنی اردو زبان میں پڑھ سکتے ہیں۔ آپ کو سب معلوم ہوجائے گا کہ اس قانون سازی کا مقصد کیا ہے لہٰذا پہلی فرصت میں گوگل پر جائیے اور ذیل میں دی گئی معلومات حاصل کیجئے۔
LAND TITLING ACT. 2022
حیرتناک بات یہ ہے کہ جائیدادوں‘ زمینات کے ریکارڈ‘ ان کی ملکیت وغیرہ کے لئے ملک میں رجسٹریشن قانون اور اسٹامپ ایکٹ ایک عرصۂ دراز سے رائج ہیں اور حکومت اور عدالتیں ان کو تسلیم کرتی ہیں ۔ ان محکمہ جات کا پھیلاؤ سارے ملک کے طول و عرض میں ہے‘ تو پھر حیرت اس بات کی ہے کہ ایسی کونسی ضرورت آن پڑی کہ وزیر خزانہ نرملا سیتارامن چوری چھپے اس قانون کا مسودہ لے آئیں اور پارلیمنٹ میں ایک ندائی ووٹ سے پاس کروالیا۔اس قانون کو ساری ریاستوں میں روانہ کیا گیا اور کہا گیا کہ تین ماہ کی مدت کے اندر آپ اس قانون کے طرز پر اپنی قانون سازی کریں اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو بعد مقررہ مدت یہ سمجھا جائے گا کہ آپ نے اس قانون کو منظور کرلیا ہے۔ لہٰذا ستمبر 2022ءمیں پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں یہ قانون پاس کرلیا گیا اور ریاستِ تلنگانہ کے بارے میں یہ بات تسلیم کی جائے گی کہ یہاں بھی یہ قانون تسلیم کرلیا گیا ہے۔
اس قانون کے مطابق ہر صاحبِ جائیداد کو لائن میں کھڑا ہوکر اپنی تمام جائیدادوں کی تفصیلات مقررہ عہدیدار کے روبرو پیش کرنا ہوگا اور اگر متعلقہ عہدیدار آپ کی فراہم کردہ تفصیلات سے مطمئن ہو تو وہ آپ کی جائیداد کی انٹری جائیدادوں کے ریکارڈز میں کردے گا کیوں کہ قانون کا مقصد ملک کی تمام غیر منقولہ جائیدادوں کا (DIGITISATION) ہے اور پھر اس کے بعد آپ کو ایک خاص (Identification) دے گا جیسا کہ آدھار کارڈ میں ہوتا ہے اور اس طرح تمام جائیدادوں کا سارے ملک میں ڈیجیٹل ریکارڈ تیار کیا جائے گا اور جس طرح آدھار کارڈ میں ایک فرد کی تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں ‘ اس طرح آپ کی جائیداد اور آپ کا بھی ایک انفرادی(Code) ہوگا۔
دوسری جانب اگر مقرر کردہ عہدیدار آپ کے فراہم کردہ تفصیلات سے مطمئن نہ ہوتو آپ کا کیس ایک اعلیٰ عہدیدار کے پاس ترسیل کردیا جائے گا جو(Dispute Resolution Authority) کہلائے گا۔ اس عہدیدار کے فیصلے سے آپ ناراض ہوں تو آپ کے لئے ایک اپیلیٹ اتھاریٹی قائم کی گئی ہے جو آپ کے مسئلہ پر فیصلہ صادر کرے گی اور یہ فیصلہ آخری ہوگا جس کے خلاف نہ کوئی اپیل ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہائیکورٹ میں درخواست پیش کی جاسکتی ہے۔
دوبڑے قوانین یعنی ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ اور رجسٹریشن ایکٹ اور تیسرے اسٹامپ ایکٹ جو جائیداد کی منتقلی اور رجسٹریشن سے تعلق رکھتے ہیں اور جو صدیوں سے رائج ہیں ‘ ان قوانین کے ہوتے ہوئے اس نئے اور نرالے قانون کی تدوین ناقابل فہم ہے ‘ سوائے اس کے کہ اس قانون سازی کے پسِ پشت عزائم کچھ نیک نہیں اور یہ کہ حکومت پرائیوٹ جائیدادوں پر اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتی ہے اور آج کل جائیدادوں کی قیمت لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہے تو مال بٹورنے کا اس سے بہتر اور آسان راستہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
قانون کا اصل مقصد بے نامی جائیدادوں پر سے نقاب اٹھانا ہے
پردھان منتری مودی جی کا گوا میں وعدہ کہ میں بے نامی جائیدادوں کو ضبط کرلوں گا اب پورا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کیوں کہ ہر جائیداد کی تفصیلات حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ جب تمام مالکینِ جائیداد خود چل کر اور لائن میں کھڑے ہوکر اپنی جائیداد کی تفصیل پیش کریں گے تو ہر بات صاف اور واضح ہوجائے گی اور از خود فراہم کردہ تفصیلات کی روشنی میں انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نوٹس دے کر مالکِ جائیداد سے اس جائیداد کی خرید کے مالی ذرائع کی تفصیلات طلب کرے گا پھر اس کے بعد دریافت کرے گا کہ اتنی بھاری رقم کے ذرائع حصول کیا تھے اور کیا آپ نے اس پر انکم ٹیکس ادا کیا تھا؟ اب جبکہ اس قانون کی روشنی میں شکار خود کھنچ کر جال میں آرہا ہے تو اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ لہٰذا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ حکومت اپنے شہریوں کو بے گھر و بے در کرنے پر آمادہ ہے۔ زعفرانی رنگ کی بوتل میں ہندوتوا کا زہر پینے کا اس سے بہتر کیا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
اس قانون سازی کا دوسرا نشانہ شہری جائیدادوں (مکانات۔ کامپلکس وغیرہ) پر سیلنگ قانون لاگو کرنا بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ لوگ جو اپنی جائیدادوں کی تفصیلات پیش کریں گے ان میں ایسے افراد بھی ہوں گے جن کے پاس کئی درجن مکانات ‘ بنگلے وغیرہ ہوسکتے ہیں لہٰذا ایسی قانون سازی بھی ہوسکتی ہے کہ ملک میں عوام کے پاس رہنے کے لئے مکانات نہیں ہیں لہٰذا فاضل تعمیر شدہ جائیدادوں کو بے گھر لوگوں میں تقسیم کردیا جائے گا اور زیادہ سے زیادہ مکانات رکھنے کی ایک حد مقرر کی جاسکتی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو بڑے بڑے قوانین کی موجودگی میں اس قانون سازی کی ضرورت کیوں درپیش ہوئی تو باث واضح ہوجائے گی کہ حکومت کے مقاصد اور نیت کیا ہے۔
مالکینِ جائیداد کو مشورہ
-1 کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں اس وقت تک اس قانون کے تحت قائم کئے گئے دفاتر جانے کی ضرورت نہیں۔
-2 آفس طلب کئے جانے کے بارے میں قانون خاموش ہے لہٰذا از خود جاکر دستاویزات پیش کرنا آبیل مجھے مار کے مترادف ہوسکتا ہے۔
-3 قانونی مشورہ کے بغیر کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں۔
اگر ضرورت محسوس ہو تو ذیل میں دیئے گئے ہیلپ لائن پر ربط قائم کیا جاسکتا ہے۔
Hepl Line : 040-23535273 – 9908850090
بذریعہ زبانی ہبہ میمورنڈم اپنی اولاد میں جائیدادیں تقسیم کردینے کا اس سے بہتر موقع پھر نہیں ملے گا۔ ورنہ بعد میں پچھتانا پڑے گا
اپنی زرخرید یا آبائی جائیداد کو اپنے ورثاء میں بذریعہ زبانی ہبہ جائیدادیں منتقل کردینے کا اس سے بہتر موقع پھر نہیں ملے گا۔ قانون سازی ہوچکی ہے اور ساری جائیدادوں کی جانچ پڑتال ہوگی ان میں کچھ بے نامی قراردی جائیں گی اور شائد ضبط بھی کرلی جائیں۔
ایک عرصۂ دراز سے سمجھایاجارہا ہے کہ شریعت قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلہ نے جو آپ کو سہولت بخشی ہے اس کا بھر پور فائدہ اٹھائیے لیکن اچھی اور فائدہ پہنچانے والی بات بہت دیر سے سمجھ میں آتی ہے یا سمجھ میں بالکل نہیں آتی۔
مندرجہ بالا وہ قانون جس پر بحث کی گئی کیا آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں۔ آپ سمجھ نہیں سکتے کہ اس قانون سازی کے پس پشت حکومت کی نیت کیا ہے۔ ایک غیر قانونی عمل کو قانونی جامہ پہنا کر آپ کو بے گھر اور بے در کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پھر بھی آپ کے سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔
آپ کو رجسٹریشن کے لاکھوں روپیہ کے اخراجات برداشت کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ گفٹ رجسٹری ضروری ہے جھوٹ کہتے ہیں کیوں کہ ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کے دفعہ(129 اور سپریم کورٹ کے 2011ء کے فیصلہ کی روشنی میں ہبہ میمورنڈم کے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں۔ کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ ‘ قانون ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کے دفعہ 129 کے احکامات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں یا رجسٹریشن آفس کے ڈاکیومنٹ رائٹر کی بے کار اور لغو باتیں زیادہ اثر رکھتی ہیں۔ آپ حضرات کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہے۔
لہٰذا اولین فرصت میں اس کام کی تکمیل کرلینی چاہیے ورنہ بعد میں بہت بھاری نقصان کا اندیشہ رہے گا۔
خاندان کے افراد اور خصوصاً قریبی ورثاء میں جائیداد کی تقسیم ایک اچھا عمل ثابت ہوگا سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ آپ کی بیٹیاں محروم نہ ہوں گی اور آپ کی حیات ہی میں وہ اپنا حق حاصل کرلیں گی ورنہ بعد میں وہ محروم کردی جائیں گی اور اپنے حق کے حصول کے لئے عدالت کے چکر کاٹتی رہیں گی یہاں تک کہ وہ بوڑھی ہوجائیں گی پھر بھی انہیں انصاف نہیں ملے گا۔ بھائی اکثر اپنی بہنوں کا حق تلف کردیتے ہیں لیکن آپ کیوں اپنے بیٹوں کو اس گناہ سے بچانے کی کوشش نہیں کرتے؟ اگر آپ اب انصاف کردیں اور حسبِ احکاماتِ شریعت اپنے بیٹے بیٹیوں میں جائیداد بذریعہ ہبہ تقسیم کردیں تو جہاں سب کو انصاف ملے گا وہیں بیٹیاں محروم نہ ہوں گیاور نہ ہی بیٹیوں کو ایک گناہِ عظیم کرنے کی ترغیب ہوگی۔ مال گناہ کی ترغیب دیتا ہے۔ اپنے بیٹوں پر رحم کیجئے ‘ ان کو گناہِ کبیرہ سے بچائیے جس کی آخرت میں سخت وعید ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰