ٹمریز میں مسلم طالبات کو بھی بتکماں کھیلنے پر مجبور کیا جارہا ہے
اقلیتی اداروں میں جب اقلیتی عملہ اقلیت میں آجاتا ہے تو اس ادارہ کا اقلیتی تشخص باقی نہیں رہتا۔ ایسا ہی کچھ اقلیتوں کے لئے قائم کردہ تلنگانہ اقلیتی اقامتی اداروں کا ہے
حیدرآباد(منصف نیوز ڈیسک) اقلیتی اداروں میں جب اقلیتی عملہ اقلیت میں آجاتا ہے تو اس ادارہ کا اقلیتی تشخص باقی نہیں رہتا۔
ایسا ہی کچھ اقلیتوں کے لئے قائم کردہ تلنگانہ اقلیتی اقامتی اداروں کا ہے جہاں نوے فیصد سے زائد عملہ غیر اقلیتی ہے جس کے نتیجہ میں ان اداروں میں اقلیتوں کے تہوار تو منائے نہیں جاتے مگر ہندؤں کے تہوار بڑے ہی اہتمام سے منائے جانے لگے ہیں۔ تلنگانہ کے کئی اقلیتی اقامتی اسکولس اور کالجس میں گنیش تہوار کے موقع پر گنیش کی مورتیاں ایستادہ کی گئی تھیں
اور روزانہ ان کی پوجا کی جاتی رہی۔ گنیش تہوار کے بعد اقلیتی اقامتی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والا ہندو عملہ بڑے ہی جوش و خروش سے بتکماں منارہا ہے اور اس میں اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے عملہ اور طلبہ و طالبات کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔
اتنا سب کچھ ہورہا ہے مگر محکمہ اقلیتی بہبود اور تلنگانہ مائنارٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی (ٹمریز) کے ارباب اپنی ہی مگن میں خواب خرگوش کی نیند سورہے ہیں۔
اقلیتی تعلیمی اداروں میں نوے فیصد سے زائد غیر اقلیتی عملہ ہونے کی وجہ سے ٹمریز کے اداروں میں اقلیتی بچوں کے داخلے بھی بتدریج گھٹتے جارہے ہیں۔ عملہ دانستہ طور پر قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر اقلیتی امیدواروں کودھڑلے سے داخلہ دیتا جارہا ہے۔
یہ روش یوں ہی برقرار رہی تو ریونت ریڈی حکومت کی میعاد کی تکمیل سے قبل ہی اقلیتی اداروں میں غیر اقلیتی طلبہ غالب آجائیں گے۔ ٹمریز کے اداروں میں کام کرنے والا ہندو طبقہ ایسا لگتا ہے منصوبہ بند انداز میں ان اداروں کو زعفرانی رنگ میں ڈھالنا چاہتا ہے‘ شائد اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ریونت کابینہ میں ایک بھی وزیر مسلم نہیں ہے اور اقلیتی بہبود کا قلمدان خود چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کے پاس ہے اور انہیں شائد ابھی تک دوسرے امور سے فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ اقلیتی بہبود کے محکمہ کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔
عمائدین ملت بھی اگر ان حرکتوں کو نظر انداز کردیں تو مسلم بچوں کے آج نہیں تو کل مرتد ہوجانے میں کوئی شبہ نہیں رہتااور اس کا وبال ان تمام لوگوں پر ہوگا جو یہ سب کچھ دیکھ کر اپنی آنکھیں موندکر رکھے ہیں۔