دستور کے مطابق بہتر حل پر عمل کیا جائے گا، جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی پر نقوی کا ردِعمل
بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی نے جمعہ کے روز کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومت مل کر معاملات پر غور کریں گے، تجاویز حاصل کریں گے اور ان کے خیال میں دستور کے مطابق جو بھی بہتر ہو اسے نافذ کریں گے۔

نئی دہلی (آئی اے این ایس) نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے ریاست کے درجہ کی بحالی کے لئے اسمبلی میں قرار داد منظور کریں گے، جس پر بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی نے جمعہ کے روز کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومت مل کر معاملات پر غور کریں گے، تجاویز حاصل کریں گے اور ان کے خیال میں دستور کے مطابق جو بھی بہتر ہو اسے نافذ کریں گے۔
نقوی نے کہا کہ جموں و کشمیر میں انتخابات منعقد ہوئے تاکہ جمہوریت کی جیت ہو۔ عوام نے اپنے حق رائے دہی کا جوش و خروش کے ساتھ استعمال کیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام جمہوریت اور اقدار میں یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی نئی حکومت پر یہ دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے۔
انہوں نے کہا مرکزی زیرانتظام علاقہ جموں و کشمیر کی نئی حکومت کی یہ دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ علاقہ کے عوام کی سیکوریٹی، احترام اور خوشحالی کے لئے سخت محنت کریں۔ اِس کے علاوہ جو بھی تجاویز ہوں، مرکزی اور ریاستی حکومت ان پر بات چیت کریں گے اور دستور کے مطابق انہیں نافذ کیا جائے گا۔
نقوی نے ہریانہ اسمبلی انتخابات میں ناقص کارکردگی کے بعد کانگریس کی جانب سے الکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر سوال اٹھائے جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کانگریس اپنی کمیوں پر غور نہیں کررہی ہے۔ اپنے چہرے پر دھول ہونے کے باوجود وہ آئینہ کو صاف کررہی ہے۔
اگر ان کے چہرے پر دھول ہے تو انہیں آئینہ کو نہیں دھونا چاہئے۔ نقوی نے کہا کہ کانگریس اصل مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کررہی ہے اور اسے مکمل طور پر نظرانداز کررہی ہے۔ میرے خیال میں انہوں نے اپنی کمیوں کی وجہ سے ہریانہ میں بہتر مظاہرہ نہیں کیا لیکن اب وہ شکست کا سامنا کرنے کے بعد الکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
انہیں چاہئے کہ پہلے پارٹی کے داخلی مسائل کو حل کریں۔ نقوی نے مزید کہا کہ ہریانہ میں کئی ایک ایسے کانگریس قائدین تھے جو یہ کہہ رہے تھے کہ وہ ریاست کے چیف منسٹر بننا چاہتے ہیں۔ وہ لوگ عوام کے فیصلہ سے نا واقف تھے اور نتائج آنے سے پہلے ہی اپنے آپ کو فاتح کہنا شروع کردیا تھا۔