دہلی

جنپنگ سے وزیراعظم کا ہاتھ ملانا کونسی دیش بھکتی ہے؟: کانگریس

کانگریس ترجمان سپریہ سریناتے نے انڈونیشیا میں گزشتہ ماہ جی 20 چوٹی کانفرنس میں چین کے صدر شی جنپنگ سے ہاتھ ملانے پر وزیراعظم نریندر مودی کو نشانہ تنقید بنایا۔ کانگریس کے الزام پر حکومت کی طرف سے فوری ردعمل نہیں آیا۔

نئی دہلی: لداخ کے دیپسانگ علاقہ میں چین کی طرف سے شیلٹرس (پناہ گاہیں) کی تعمیر کی میڈیا اطلاعات کے حوالہ سے کانگریس نے ہفتہ کے دن اس مسئلہ پر حکومت کی ”خاموشی“ پر سوال اٹھایا اور پوچھا کہ اپریل 2020 کے موقف کی جوں کی توں برقراری کے لئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں۔

کانگریس ترجمان سپریہ سریناتے نے انڈونیشیا میں گزشتہ ماہ جی 20 چوٹی کانفرنس میں چین کے صدر شی جنپنگ سے ہاتھ ملانے پر وزیراعظم نریندر مودی کو نشانہ تنقید بنایا۔ کانگریس کے الزام پر حکومت کی طرف سے فوری ردعمل نہیں آیا۔

کانگریس‘ چین کے ساتھ سرحدی مسائل سے نمٹنے کے معاملہ میں مودی حکومت کو مسلسل نشانہ تنقید بنائے ہوئے ہے۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے حالیہ عرصہ میں اپنا سرحدی انفرااسٹرکچر قابل لحاظ حد تک بہتر بنالیا ہے۔ سپریہ سریناتے نے اے آئی سی سی ہیڈکوارٹرس نئی دہلی میں پریس کانفرنس میں کہا کہ 15نومبر کو مودی نے شی جنپنگ سے ملاقات کی۔

انہوں نے صدر چین کو لال آنکھیں نہیں دکھائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سرخ شرٹ پہنے ہوئے تھے۔ مجھے حیرت ہے کہ ہمارے 20 بہادر فوجیوں کی قربانی کے بعد مودی نے شی جنپنگ سے کیا بات کی ہوگی۔

میڈیا کے حوالہ سے سپریہ نے کہا کہ دیپسانگ علاقہ میں چین نے ٹمپریچر ریگولیٹیڈشیلٹرس تعمیر کردیئے ہیں جن سے فوجیوں کو وہاں مستقل تعینات رہنے میں مدد ملے گی۔

 کانگریس ترجمان نے الزام عائد کیا کہ حقیقی خط ِ قبضہ (ایل اے سی) کے اندر ہمارے 15-18 کیلو میٹر کے علاقہ میں چین نے ایسے 200 شیلٹرس بنالئے ہیں۔ انہوں نے سوال کیاکہ وزیراعظم مودی‘ ان کی حکومت یا وزارت ِ خارجہ کی طرف سے ایک بھی بیان کیوں نہیں آیا؟۔ یاد رہے دیپسانگ اور دیمچوک دفاعی نقطہ ئ نظر سے ہمارے لئے انتہائی اہم ہیں۔

 یہ بھی یاد رہے کہ دیپسانگ علاقہ میں چین بڑے حصہ پر ہنوز قابض ہے۔ سپریہ نے بعض تصاویر بھی دکھائیں جو اُن کے بقول سٹیلائٹ امیجس ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ چین بری اور بحری علاقہ میں بڑی قلعہ بندی کررہا ہے۔

پینگانگ جھیل علاقہ کے اطراف چین نے پی ایل اے ڈیویژن ہیڈکوارٹر‘ ایک چھاؤنی‘ توپ خانہ اور طیارہ شکن گن شیلٹر بنادیا ہے۔ مودی حکومت کی خاموشی سے چین کے حوصلے بلند ہیں۔ اسے وزیراعظم مودی کے اس بیان سے بھی کلین چٹ ملی کہ ہمارے علاقہ میں کوئی بھی داخل نہیں ہوا۔

وزیراعظم سے سوال کرتے ہوئے سپریہ نے کہا کہ وہ دوسری طرف کیوں دیکھ رہے ہیں جبکہ دیمچوک اور دیپسانگ علاقوں میں مستقل شیلٹرس بن رہے ہیں۔ انہیں ہٹانے کے لئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں؟۔

چینیوں کو دیپسانگ اور دیمچوک سے پیچھے دھکیلنے کے لئے کیا کیا جارہا ہے؟ قوم پرستی کیا ہے؟۔ مودی جی آپ جسے چاہتے ہیں اسے دیش بھکتی کا سرٹیفکیٹ دینے کے لئے بے قرار رہتے ہیں۔ قوم پرستی کیا یہی ہے کہ دوسری طرف دیکھا جائے اور آنکھیں بند کرلی جائیں۔

 اپنے 20 بہادر فوجی گنواکر چینی صدر سے ملا جائے۔ ہندوستانی مسلح افواج‘ سابق اور موجودہ فوجی‘ ماہرین ِ دفاع کا ایک ہی سوال ہے کہ ہندوستان اپریل 2020 کا موقف کب بحال کرے گا۔ سپریہ نے کہا کہ کانگریس تمام دستیاب فورمس میں یہ مسائل اٹھاتی رہے گی۔