مذہب

بھوک سے زیادہ کھانا

افضل طریقہ تو یہ ہے کہ انسان خواہش باقی رہتے ہوئے کھانا چھوڑ دے ، جیساکہ حدیث میں وارد ہے ، کہ پیٹ کا ایک تہائی کھانے کے لئے اور ایک تہائی پانی کے لئے اور ایک تہائی سانس کے لئے ہونا چاہئے :

سوال:- آج کل کھانے کی دعوتیں بڑی ہی مسرفانہ ہوتی ہیں ، بہت سی دفعہ انسان اپنی خواہش یا میزبان کے اصرار پر بہت زیادہ کھالیتا ہے ، یہاں تک کہ بعض اوقات پیٹ بھی خراب ہوجاتا ہے ،

متعلقہ خبریں
مہر کی کم سے کم مقدار
خواتین کا محرم کے بغیر سفر
دھوکہ دہی کے ذریعہ 20 خواتین سے شادی کر نے والا گرفتار
گائے کے پیشاب سے علاج
شادی شدہ خاتون از خود خلع نہیں لے سکتی

اس طرح کھانا صحت کے اعتبار سے تو نقصان دہ ہے ہی ، کیا شرعی اعتبار سے بھی اس میں کوئی قباحت ہے ؟ (نازش ہما، سعیدآباد)

جواب:-افضل طریقہ تو یہ ہے کہ انسان خواہش باقی رہتے ہوئے کھانا چھوڑ دے ، جیساکہ حدیث میں وارد ہے ، کہ پیٹ کا ایک تہائی کھانے کے لئے اور ایک تہائی پانی کے لئے اور ایک تہائی سانس کے لئے ہونا چاہئے :

’’۔۔ فثلث للطعام وثلث للشراب وثلث للنفس ‘‘ (سنن ابن ماجۃ ، کتاب الأطعمۃ ، باب الاقتصاد في الأکل وکراہۃ الشبع ، حدیث نمبر : ۳۳۴۹)

یعنی آسودگی سے بھی کم کھایاجائے ، البتہ اتنا کھانا کہ طبیعت آسودہ ہوجائے ، جائز ہے ، اس میں کراہت نہیں ہے ، اس سے زیادہ کھانا اور بہ تکلف خواہش ختم ہوجانے کے باوجود کھاتے رہنا درست نہیں ؛

کیوںکہ یہ فضول خرچی بھی ہے ، اور صحت کے لئے نقصاندہ بھی اورصحت کی حفاظت بھی انسان پر واجب ہے ، علامہ علاء الدین حصکفیؒ نے تو اسے حرام کہاہے ، اور فتاوی قاضیخان میں مکروہ قرار دیا گیا ہے :

’’ ومباح إلی الشبع لتزید قوتہ ، وحرام عبر في الخانیۃ بیکرہ ، وہو مافوقہ أي الشبع ، وہو أکل طعام غلب علی ظنہ أنہ أفسد معدتہ ‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار : ۹/۴۸۹)

اس لئے اس طرح کھانے سے بچنا چاہئے اور محض کھانے پینے کو مقصد زندگی نہ بنا لینا چاہئے ؛ کیوںکہ کھانا زندگی کے لئے ہے نہ کہ زندگی کھانے کے لئے ۔