مضامین

پرانے شہر میں میٹرو ریل کے کاموں کا آغاز کب ہوگا ؟

پرانے شہر کے عوام سے حکومت ٹیکس لینے میں دیر نہیں کرتی بلکہ وقت کے گزر جانے کے بعد یہاں چالانات کی بوچھار کردینے میں حکومت دیر نہیں لگاتی، شاید یہی ہے پرانے شہر کی قسمت اور یہاں کے شہریوں کے قسمت میں صرف خواب ہی دیکھنا لکھا ہے لیکن حکومت ان کے خواب دیکھنے کو بھی شاید جرم سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ برسوں گزر جانے کے بعد بھی پرانے شہر کے رہنے والوں سے کئے گئے حکومت کے وعدے وفا نہیں ہوتے...وہ صرف خواب بن کر رہ جاتے ہیں ۔

محمد اسمٰعیل واجد
9866702650

پرانے شہر میں رہنے والوں کا ہمیشہ سے یہ تاثر رہا ہے کہ آخر ریاستی حکومت کی جانب سے انہیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے …سزا ایک ہو شاید اسے برداشت بھی کرلیا جائے لیکن یہاں تو پرانے شہر میں رہنے والوں کے لئے سزاؤں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جسے بیان کرے بھی تو کوئی کیسے کرے کہاں سے شروع کرے اور کہاں ختم کرے یہ کوئی پرانے شہر میں رہنے والے شہریوں سے پوچھے کہ ان کے ذہن میں ان سے کی جانے والی حکومت کی نا انصافیوں اور انہیں پسماندگی میں جھونک کر ان سے حکومت کیسا سوتیلا سلوک کررہی ہے ۔

پینے کے پانی کا یہاں مسئلہ ، برقی کا بار بارگل ہوجانا یہاں کا مسئلہ ، بلدی مسائل سے بھرا پڑا پرانا شہر جس کی پہچان موریوں سے بہتا گندہ پانی ، ڈرنیج لائن کی عدم صفائی جس سے مچھروں کی کثرت اور اس سے پیدا ہونے والے وبائی امراض اور ان وبائی امراض سے جوجتے پرانے شہر کے عوام ، کھد بگڑی سڑکیں یہی تو بن گئی ہے پرانے شہر کی پہچان جس کو دیکھنے والا کوئی نہیں …ہاں پرانے شہر کے عوام سے حکومت ٹیکس لینے میں دیر نہیں کرتی بلکہ وقت کے گزر جانے کے بعد یہاں چالانات کی بوچھار کردینے میں حکومت دیر نہیں لگاتی، شاید یہی ہے پرانے شہر کی قسمت اور یہاں کے شہریوں کے قسمت میں صرف خواب ہی دیکھنا لکھا ہے لیکن حکومت ان کے خواب دیکھنے کو بھی شاید جرم سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ برسوں گزر جانے کے بعد بھی پرانے شہر کے رہنے والوں سے کئے گئے حکومت کے وعدے وفا نہیں ہوتے، وہ صرف خواب بن کر رہ جاتے ہیں ۔ ان حالات پر مشہور شاعر احسان دانش ؔ کا یہ شعر یاد آتا ہے:

آرزو اک جرم جس کی سزاء ہے زندگی
زندگی بھر آرزوؤں کو پشیماں کیجئے

ایسا ہی ایک خواب پرانے شہر کے شہریوں کو متحدہ آندھراپردیش کے وزیر اعلیٰ آنجہانی راج شیکھر ریڈی نے دکھایا تھا ۔ پرانے شہر میں میٹرو ریل دوڑنے کا گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہونے کا …پرانے شہر میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی تھی اور پرانے شہر کے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ کوئی تو ایسا وزیر اعلیٰ آیا جو پرانے شہر کی پسماندگی دور کرنے کی بات کررہا ہے ۔ پرانے شہر میں آکر اقلیتوں کی ترقی کی اسکیمات شروع کررہا ہے اور سب سے بڑھ کر پرانے شہر اور نئے شہر کو میٹرو ریل سے جوڑنے اور گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہوتے جس سے یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی بھی ہو لیکن کہا جاتا ہے جب قسمت ہی خراب ہوتو کوئی کیا کرسکتا ہے …ایسا ہی کچھ ہوا، حالات نے ایک عدم پلٹی کھائی اور سب کے چہیتے وزیر اعلیٰ راج شیکھر ریڈی آنجہانی ہوگئے لیکن تلنگانہ عوام کا ایک دیرینہ خواب علیحدہ ریاست تلنگانہ شرمندہ تعبیر ہوا جس کے لئے تلنگانہ کے عوام نے دامے درمے سخنے ہر طرح سے علیحدہ ریاست تلنگانہ کی جدوجہد کی تھی۔ علیحدہ تلنگانہ حکومت بنی جسے تقریباً ایک دہا ہونے کو ہے لیکن تلنگانہ ریاست کی اقلیتیں خاص کر مسلمانوں نے جو خواب دیکھے تھے وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ،آج بھی وہ روزگار سے محروم ہیں آج بھی اردو زبان کو انصاف نہیں مل رہا ہے اور موجودہ وزیر اعلیٰ نہ تو پرانے شہر کا دورہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ پرانے شہر کے مسائل کو حل کرنے میں انہیں کوئی دلچسپی ہے۔ ان کے پاس کوئی خاص بات ہے تو بس سنہرا تلنگانہ کے حسین خواب ہے، ایسے میں پرانے شہر والوں کے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ حکومت پرانے شہر کو صرف للچاتے سنہرے خوابوں تک کیوں محدود رکھنا چاہتی ہے ۔

2018ء میں منتخبہ عوامی نمائندوں کے ساتھ منیجنگ ڈائرکٹر حیدرآباد میٹرو ریل مسٹر این وی ایس ریڈی کے دورہ کے بعد اندرون 3 یوم پرانے شہر میں میٹرو ریل کے کاموں کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا اور ا س اعلان کے ساتھ ہی دارالشفاء ، میر عالم منڈی ، کوٹلہ عالیجاہ اور مغل پورہ سڑک پر توسیع کی زد میں آنے والی عمارتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے جائیدادوں کی حصولیابی کی تفصیلات درج کی جانے لگی تھی جس کے ساتھ ہی عوام میں یہ احساس ہوگیا تھا کہ واقعی میٹرو ریل کو پرانے شہر میں دوڑانے حکومت سنجیدہ ہے ۔

پرانے شہر کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اس بات کو لے کر کہ پرانے شہر کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع دستیاب ہوں گے، منٹوں میں گھنٹوں کا سفر طے ہوگا، آمد و رفت کے بھاری اخراجات سے نجات ملے گی لیکن یہ تمام خواب بہت جلد ان ہی خوابوں میں شامل ہوگئے جو سنہرے تلنگانہ کے خواب ہمارے وزیر اعلیٰ ہر پل اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ اسے پرانے شہر والوں کی بد قسمتی سمجھیں یا حکومت تلنگانہ کی پرانے شہر والوں کے ساتھ سوتیلا رویہ سمجھیں ، پرانے شہر میں میٹرو ریل کے کاموں کے تیزی سے اعلان کے ساتھ دارالشفا، مہاتما گاندھی بس اسٹیشن سے تقریباً 250 میٹر کا میٹرو ریل برج تعمیر ہوکر کھڑا ہے جس کا رخ دارالشفاء کی جانب ہے جس پر شاید وقفہ کے لئے آج بھی کبھی کبھار میٹرو ریل کھڑی ہوئی دیکھی جاتی ہے جسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ پرانے شہر والوں کا منہ چڑھارہی ہو اور جیسے یہ کہہ رہی ہو میرا بس اتنا سا وجود پرانے شہر والوں کے لئے ،ایک انتخابی جملہ تھا یا ایک سیاسی حربہ تھا جس کی زد میں سادہ لوح عوام آگئے اور آج میرا وجود جہاں تھا ، وہیں پر کھڑا ہے، نہ جانے کب پھر ان سیاست دانوں کو میری ضرورت پڑے گی اور پھر مجھے کچھ قدم آگے بڑھایا جائے گا ۔

اسے پرانے شہر کے عوام کی قسمت کہیں یا اسے سیاسی مصلحتیں کہیں، اسی کشمکش کے احساس کمتری میں پرانے شہر کے عوام زندگی گزار رہے ہیں ، انہیں خود سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا اپنا پرانا شہر کس سیاست کا شکار ہے یا حکومت ان پر مہربان ہونا نہیں چاہتی …جس پر مشہور شاعر منور رانا کا یہ شعر یاد آتا ہے :

یہ بازار سیاست ہے یہاں خودداریاں کیسی
سبھی کے ہاتھ میں کاسہ ہے، مٹھی کون باندھے گا

شاید ایسی ہی سیاست کا شکار پرانا شہر نظر آتا ہے، کوئی وزیر پرانے شہر کو اولڈ سٹی سے گولڈ سٹی بنانے کی بات کرکے غائب نظر آتا ہے جس کو پرانے شہر والے بھی سنہرے تلنگانہ کا سنہرا دھو کا سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں ۔گذشتہ چار برسوں کے دوران کئی مرتبہ پرانے شہر کی میٹرو ریل کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا اور گذشتہ بجٹ میں ریاستی حکومت نے میٹرو ریل کے لئے کچھ رقم مختص کرنے کا بھی فیصلہ کیا لیکن آج تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جو کہ پرانے شہر کے عوام کے لئے مایوسی کا سبب بن رہی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرانے شہر کی ترقی کے لئے میٹرو ریل کے کاموں کو دوبارہ تیزی کے ساتھ شروع کرنے بجٹ جاری کرے تاکہ جلد سے جلد پرانے شہر میں میٹرو ریل دوڑ سکے اور پرانے شہر کے عوام بھی شہر کی ترقی میں سب کے ساتھ جڑ جائیں ۔

پرانے شہر میں سڑکوں کی توسیع کے بہت سے کام زیرالتواء میں ، جو کہ مصروف ترین سڑکیں ہیں اور ٹریفک کے اژدھام سے جوج رہی ہیں۔ ان سڑکوں پر چلنے سے پیدل راہرو بھی گھبرارہے ہیں ۔ ایسی اہم سڑکوں کی توسیع کے کاموں کو بھی حکومت نہ جانے کس بناء پر زیرالتواء رکھ رہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکومت عوامی مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے ۔

چارمینار پیدل راہرو پراجکٹ کا حال تو مشہور مثل ’’ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا ‘‘ کے مماثل ثابت ہوا ۔ وزیر بلدی نظم و نسق نے احاطہ چارمینار میں ٹھہر کر اس پراجکٹ کو دو ماہ میں تکمیل کرنے کا اعلان کیا تھا، اس اعلان کو بھی شاید تقریباً دو سال ہوگئے لیکن یہ پراجکٹ جہاں تھا وہیںہے۔ چند روز قبل وزیر بلدی نظم و نسق نے چارمینار کے علاقہ کے استحکام کے منصوبہ کے آغاز کی ہدایت دی ہے۔ اسپیشل چیف سکریٹری بلدی نظم و نسق نے اس سلسلہ میں لوئس مون ریال ڈائرکٹر جنرل آغا خان ٹرسٹ اور آغا خان ٹرسٹ کے دیگر عہدہ داروں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ۔ وزیر بلدی نظم و نسق نے اس پراجکٹ کا نام ’’ چارمینار تاریخی احاطہ تزئین نو ‘‘ کا نام دیا ہے، قلی قطب شاہ اربن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ اربن مینجمنٹ بھی اس پراجکٹ پر کام کریں گے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آغا خان ٹرسٹ کے اشتراک سے یہ کام پائے تکمیل کو پہنچتا ہے یا یہ بھی ایک شگوفہ ثابت ہوتا ہے ۔
٭٭٭