بی آر ایس اور مجلس میں لفظی جنگ

تلنگانہ کی حکمراں جماعت بی آر ایس اور اس کی دوست جماعت اے آئی ایم آئی ایم کے درمیان لفظی جنگ شروع ہوئی۔ بی آر ایس کے کارگزار صدر کے ٹی آر نے صدر مجلس اسد الدین اویسی ایم پی کے تبصرہ پر جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ تمام اقلیتیں، مجلس کو ووٹ نہیں دیتی۔

حیدرآباد: تلنگانہ کی حکمراں جماعت بی آر ایس اور اس کی دوست جماعت اے آئی ایم آئی ایم کے درمیان لفظی جنگ شروع ہوئی۔ بی آر ایس کے کارگزار صدر کے ٹی آر نے صدر مجلس اسد الدین اویسی ایم پی کے تبصرہ پر جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ تمام اقلیتیں، مجلس کو ووٹ نہیں دیتی۔

کے ٹی آر کا یہ ریمارک اس وقت سامنے آیا جبکہ اسد الدین اویسی نے بی آر ایس پر حیران کن و اچانک حملہ کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا کہ بھارت راشٹرا سمیتی، اقلیتوں کی تائید کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ آج یہاں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بی آر ایس قائد نے کہا کہ ان کی پارٹی، کسی کو بھی معمولی نہیں سمجھتی۔

انھوں نے واضح کردیا کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ تمام اقلیتیں، مجلس یا کانگریس یا بی آر ایس کو ووٹ دیتی ہیں۔ ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ عوام مذہب کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں بلکہ ہمارا یہ یقین ہے کہ عوام اُس جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جو انھیں بہتر حکمرانی فراہم کرتے ہیں۔

اسد الدین اویسی ایم پی کی جانب سے عوامی جلسوں میں اپنی تقاریر میں بی آر ایس حکومت کو نشانہ بنانے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کے ٹی آر نے کہا کہ یہی رکن پارلیمنٹ (اسد الدین اویسی) دیگر ریاستوں میں اقلیتوں کی بہبود سے متعلق تلنگانہ ماڈل کی ستائش کرتے ہیں۔

اب اسد الدین اویسی کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ کس پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ مجلس، زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے کوشاں ہے؟ تو بی آر ایس قائد نے کہا کہ وہ ایک آزاد سیاسی جماعت ہے، وہ کہیں سے بھی الیکشن لڑسکتی ہے۔

کے ٹی آر جن کے پاس آئی ٹی، بلدی نظم و نسق کا قلمدان بھی ہے، نے اس امید کا اظہار کیا کہ بی آر ایس فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تیسری بار ریاست کے اقتدار پر قابض ہوجائے گی، اس طرح بی آر ایس اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرے گی۔ انھوں نے یہ ریمارک بھی کیا کہ تلنگانہ میں بی جے پی کیلئے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔

یہ پارٹی صرف سوشل میڈیا تک محدود رہے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ تلنگانہ میں کانگریس کا بی آر ایس سے کوئی مقابلہ نہیں رہے گا۔ اگر اقتدار میں آنے کا کانگریس دعویٰ کرتی ہے تو اس کا یہ بھرم ہے کیونکہ شرمیلا اور اے کے پال جیسے قائدین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ عوام کے پاس جائیں گے۔