سوشیل میڈیامذہب

موت کی تمنا کرنا شرعاً منع ہے

کسی مسلمان پر موت کی علامتیں ظاہر ہونے لگ جائیں اور وہ سکرات کی حالت میں ہو تو کلمہ توحید کی تلقین کی جائے ، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: عن ابي سعید وابي ھریرہ قالا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقنوا موتا کم لا الٰہ الا اللہ (مسلم) حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی موت قریب آگئی ہو اور سکرات کا عالم طاری ہو تو اس کے سامنے آواز سے کلمہ توحید لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ (اس طرح) پڑھے (کہ مرنے والا اس کوسنے اور کلمہ توحید اسے یاد آجائے) (مسلم)۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

زندگی وموت اللہ ہی کے ہاتھ ہے، ان کا خالق ومالک وہی ہے، حیات وموت کا انحصار مشیتِ خداوندی پر ہے، یہ حق ہے کہ حیات کے ساتھ موت لازم ہے۔ رب العالمین کے سوا ہر شئے فنا ہونے والی ہے۔ حیات کا تعلق جسم و روح سے ہے، اگر بدن سے روح نکل کر دوسرے مکان میں منتقل ہوجائے تو اسے موت کہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حیات وموت دومجسم مخلوق ہیں۔ موت ایک مینڈے کی شکل ہے۔

حیات ایک گھوڑی کی شکل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اہلِ جنت جنت میں داخل ہونگے، اہل ِدوزخ جہنم میں جائیں گے تو موت کو ایک مینڈے کی شکل میں لایا جائیگا اور پل صراط کے پاس اسے ذبح کیا جائیگا۔(بخاری) دنیا میں موت کی یہ شکل نہیں ہوتی بلکہ جسم سے روح جو امر رب ہے اسے فرشتے نکالتے ہیں اسی کو دنیا میں موت کہتے ہیں اور یہ حق ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے۔ وہ وقت سے نہ موخر ہوتی ہے نہ پہلے آتی ہے، شریعت مطھرہ نے موت کو یاد کرنے کا حکم دیا، جسکی وجہ سے بندہ نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے اور گناہوں سے بچتے رہتا ہے۔

لیکن موت کی تمنا کرنے سے منع کیا گیا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عن انس بن مالک ؓ قال النبي ﷺ: لا یتمنین احدکم الموت من ضر اصابہ ۔۔ الیٰ آخرہ (بخاری) حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی بھی شخص کسی تکلیف کے پہنچنے کی وجہ سے ہرگز موت کی تمنا نہ کرے پس اگر اس کو تمنا کرنی ہوتو وہ یوں کہے اے اللہ : مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو اور جب میرے لئے وفات بہتر ہو تو مجھ کو وفات دیدے۔ اسی طرح مسلمہ بن ابوزید سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا موت کی تمنا نہ کرو کیونکہ موت کی ہولناکی شدید ہے اور مردِ مومن کی سعادت اس کی لمبی عمر میں ہے اورممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نیکی کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی طرح ترمذی شریف میں ہے حارثہ بن مضربؓ کہتے ہیں میں حضرت خبابؓ کی عیادت کیلئے ان کے پاس گیا انہوں نے اپنے پیٹ کی تکلیف کی وجہ سے (علاج کے طور پر) گرم لوہے سے اپنے پیٹ کو داغ دیا تھا، انہوں نے کہا: میرے علم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی ایک پر بھی اتنے سخت مصائب نہیں آئے جتنے مصائب مجھ پر آئے ہیں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت کی تمنا سے منع نہیں فرماتے تو میں ضرور موت کی تمنا کرتا۔ بعض لوگ دنیا کی پریشانی ومصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا کرتے ہیں اور دعا کرتے رہتے ہیں کہ ایسی مصیبت سے بہتر موت ہے، اگر بندہ دنیا میںتکالیف کو برداشت کرتے ہوئے صبر کرلے تو اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں صابر وشاکر کا بہت بڑا مقام ہے وہ اپنے محبوبوں کو آزماتا ہے تاکہ انہیں بلند مقام عطا کرے۔یہ سچ ہے کہ دنیا کی مصیبتیں مرنے کے بعد پیش آنے والی مصیبتوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہیں۔

یقیناًصحت وحیات دونوں انسان کیلئے بہت بڑی نعمت ہیں، ان کی قدر کرنی چاہئے۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے: رسول اعظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے فرمایا: خذ من صحتک لسقمک، ومن شبابک لھرمک، ومن فراغک لشغلک، ومن حیاتک لموتک فانک لاتدری ما اسمک غداً۔ اپنی صحت کی حالت میں بیماری کیلئے اور اپنی جوانی کی حالت میں بڑھاپے کیلئے اور اپنے فرصت کے لمحات میں مصروفیت کیلئے اور جب تک زندگی ہے موت کیلئے (نیکیوں کا) ذخیرہ جمع کرلو تم نہیںجانتے کہ کل تمہارا کیا نام ہوگا۔ جب تک زندگی ہے اسے غنیمت جان کر اچھے عمل کرتے رہیں تاکہ اللہ ورسول راضی ہوجائیں۔ موت کب اور کس وقت آنے والی ہے کوئی نہیں جانتا البتہ انبیاء علیہم السلام کو اس کا علم ہوتا ہے اور انہیں اختیار بھی دیا جاتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: جاء ملک الموت الیٰ موسیٰ علیہ السلام فقال لہ: اجب ربک ۔۔ الیٰ آخرہ (مسلم) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ملک الموت (انسانی شکل میں) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور ان سے عرض کیا تمہارا رب تمہیں بلا رہا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرشتہ کو ایک طمانچہ رسد کیا تو اس کی آنکھ باہر آگئی، پھر فرشتہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا اے اللہ تو نے اپنے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا اور ان کے طمانچہ مارنے کی وجہ سے میری آنکھ پھوٹ گئی تو رب تبارک وتعالیٰ نے فرشتہ کی آنکھ دوبارہ درست کردی اور فرمایا: میرے بندے کے پاس جائو اور کہو کیا تم (مزید) زندگی چاہتے ہو؟ اگر زندگی چاہتے ہو تو اپنا ہاتھ بیل کی پشت پر رکھو تمہارا ہاتھ جتنے بالوں پر لگے گا (ایک بال کے بدلے ایک سال) اتنی تمہاری مزید حیات ہوگی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرشتہ سے پوچھا اس کے بعد کیا ہوگا؟تو فرشتہ نے کہا: موت ہوگی، تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا:

ابھی روح قبض کرلو، تب حضرت موسیٰؑ نے کہا بیت المقدس کے اتنے قریب میری روح قبض کرنا جتنا پتھر پھینکنے کے فاصلے پر ہو، پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میں اس جگہ ہوتا تو تمہیں سرخ ٹیلہ کے پاس ان کی قبر بتاتا۔ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حیات وموت کا اختیار دیا گیا اور انہیں انکی موت کا علم بھی دیا گیا اور انہوں نے دعا فرمائی کہ میری موت بیت المقدس کے قریب ہو، اس سے واضح ہے کہ اچھی موت کی دعاء کی جائے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی وحیات کا اختیار دیا گیا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: ان عائشۃ ؓ قالت: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول وھو صحیح: انہ لم یقبــض نبي قط ۔۔ الیٰ آخرہ (مسلم)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تندرستی کے زمانہ میں فرمایا: کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک کہ وہ جنت میں اپنا مقام دیکھ نہ لے، پھر اس کو اختیار دے دیا جاتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کا وقت آیا تو اس وقت آپ ؐ کا سر میرے زانوں پر تھا، آپؐ پر کچھ دیر بے ہوشی طاری رہی، پھر آپ ہوش میں آئے، آپؐ نے چھت کی طرف نگاہیں اٹھائیں پھر فرمایا: اے اللہ ! رفیق اعلی!، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے سوچا اب حضور ہم کو اختیار نہیں کریں گے ، حضرت عائشہ کہتی ہیں مجھے وہ حدیث یاد آئی جو حضور نے صحت کے زمانے میں فرمائی تھی، کہ کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک اسے جنت میں اس کا مقام نہ دکھا یا جائے، پھر اس کو اختیار دیا جاتا ہے ، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری کلمات یہ تھے:اللھم الرفیق الاعلیٰ ۔

یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی کواپنی موت کا علم نہیں ہوتااور نہ ہی اس کو مہلت دی جاتی ہے، روح قبض کرنے کیلئے ملک الموت مقرر ہیں۔ ارشاد خدا وندی ہے: قُلْ یَتَوَفَّاکُم مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّکُمْ تُرْجَعُون (سورہ سجدہ) (اے حبیبؐ) فرمائیے(اے لوگو) موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کردیا گیا ہے تمہاری روح قبض کرے گا پھر اپنے رب کی طرف تم لوٹائے جائو گے۔ جس فرشتہ کو روح قبض کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہے اس کا نام عزرائیل علیہ السلام ہے۔ مومن وکافر ہر شخص کی روح وہی قبض کرتا ہے لیکن جب کافر کی روح قبض کی جاتی ہے تو اس وقت اس فرشتے کی شکل بڑی خوفناک اور ڈرائونی ہوتی ہے اور اس کا رویہ بڑا سخت ہوتا ہے اور جب کسی مومن کی روح قبض کرتا ہے تو وہ سراپا حسن وجمال بن کر آتا ہے اور بڑے محبت بھرے انداز سے مومن کی روح قبض کرتاہے۔ حضرت امام جعفر نے اپنے والد ماجد حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک الموت کو ایک انصاری کے سرہانے دیکھا تو فرمایا: ارفق بصاحبی فانہ مؤمن۔ میرے صحابی کے ساتھ نرمی اور شفقت کے ساتھ پیش آنا کیونکہ وہ مومن ہے ملک الموت نے عرض کی : طب نفسا وقرعینا فانی لکل مؤمن رفیق۔

اے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ خوش ہوں، آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، میں آپ پر ایمان لانے والے ہر شخص کے ساتھ بڑی نرمی اور شفقت سے پیش آتا ہوں۔ نیک مومن کی جب روح نکالی جاتی ہے تو فرشتہ اسے سلام کرتے ہیں اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: الَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلآئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْْکُمُ ادْخُلُواْ الْجَنَّۃَ (سورہ نحل) جن کی روح فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں اور فرشتے ان کو السلام علیکم کہتے ہیں تم اپنے (نیک) عمل کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجائو۔

کسی مسلمان پر موت کی علامتیں ظاہر ہونے لگ جائیں اور وہ سکرات کی حالت میں ہو تو کلمہ توحید کی تلقین کی جائے ، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: عن ابي سعید وابي ھریرہ قالا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقنوا موتا کم لا الٰہ الا اللہ (مسلم) حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی موت قریب آگئی ہو اور سکرات کا عالم طاری ہو تو اس کے سامنے آواز سے کلمہ توحید لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ (اس طرح) پڑھے (کہ مرنے والا اس کوسنے اور کلمہ توحید اسے یاد آجائے) (مسلم)۔ اور سکرات کے وقت سورہ یٰس کی تلاوت کی جائے تو موت آسان ہوجاتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

وعن معقل بن یسار قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقرٔوا سورۃ یٰسٓ علیٰ موتاکم (ابوداود) حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : آپؐ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جس شخص کی موت قریب آگئی ہو (اور اس پرسکرات کی کیفیت طاری ہوگئی ہو) تو (اس کے نزدیک بیٹھ کر) اس کے سامنے سورہ یاسین پڑھا کرو۔عاشقانِ رسول کے انداز کچھ نرالے ہوتے ہیں ، وہ مرنے والوں سے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی جانب سے سلام پیش کرنے کی درخواست کرتے ہیں، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

وعن محمد بن المنکد ر قال دخلت علیٰ جابر بن عبد اللہ وھو یموت فقلت اقرا علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابن ماجہ ) حضرت محمد بن المنکدرؓ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کی خدمت میں ایسے وقت حاضر ہوا کہ وہ سکرات کی حالت میں تھے، میں نے ان سے عرض کیا کہ حضرت آپ اب دنیا سے جارہے ہیں (اور عالم برزخ میں سب سے پہلا کام آپ کا یہ ہوگا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملاقات حاصل کریں گے۔ تو میرا سلام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچائیے۔

ہر بندہ اس بات سے واقف ہے کہ موت کا ایک دن متعین ہے، اس سے کسی کو چھٹکارہ نہیں بقول شاعر: موت سے کس کو رستگاری ہے آج ان کی توکل ہماری باری ہے لیکن اکثر لوگ موت کے بعد کے مراحل کی تیاری سے غافل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭