Co-Education: مخلوط درسگاہوں میں حصولِ علم
حضرت داتا گنج بخش علی فرماتے ہیں، علم اسی قدر سیکھنا فرض ہے جس سے عمل درست ہو؛ کیونکہ علم سے دنیا حاصل کرنے والوں کی اللہ نے مذمت فرمائی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے؛

سوال:- صرف اپنی اور اپنے خاندان کی عزت بڑھانے، اونچا نام کرنے اور سوسائٹی میں مقام بنانے کے لئے لڑکیوں کا غیر لڑکوں کے ساتھ کالج میں پڑھنا ، جہاں یقینی طور پر کوئی چیز دیکھنے اور کرنے میں دن میں کئی مرتبہ مردوں سے ٹکرانا پڑتا ہو، کیا یہ جائز ہے ؟
اگر پڑھائی چھوڑدیں تو ماں باپ کی ناراضگی کا ڈر ہو تو کیا تعلیم جاری رکھنا صحیح ہے ؟ اور یہ خیال کرکے کہ اب تو پورا ہوہی گیا،چند مہینے رہ گئے ہیں، پورا کرلیں تاکہ قوم اور خلق کی خدمت کی جاسکے ، کیا صحیح ہوگا ؟
دوسرے یہ کہ آج کل ماں باپ لڑکی کی شادی اچھی جگہ ہو، اس خیال سے بھی دنیوی تعلیم دلاتے ہیں ،جو اکثر بے کار ہوتی ہے، کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،سوائے ڈگری حاصل کرنے کے ان کو کوئی فن اور ہنر نہیں آتا، اس تعلیم میں تقریبا ۵/ سال بیکار قسم کی پڑھائی میں صرف ہوجاتے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ خاندان میں بھی کوری رہ جاتی ہیں –
حضرت داتا گنج بخش علی فرماتے ہیں، علم اسی قدر سیکھنا فرض ہے جس سے عمل درست ہو؛ کیونکہ علم سے دنیا حاصل کرنے والوں کی اللہ نے مذمت فرمائی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے؛
اگر چہ کہ یہ دینی علم حاصل کرنے کے بارے میں ہے؛ لیکن کیا یہ بات دنیا کا علم حاصل کرتے وقت پیش نظرنہیں رکھنی چاہئے ؟ اور حدیث میں جس علم کے حاصل کرنے کی رخصت آئی ہے وہ کونسا علم ہے، دینی یا دنیوی ؟ (فارحہ تبسم، ٹولی چوکی )
جواب:- اپنی ضرورت کے مقدار دینی علم حاصل کرنا ہر شخص پر فرض ہے، اور عام انسانی ضروریات کا علم فرض کفایہ کے درجہ میں ہے، یعنی سوسائٹی میں کچھ لوگ اس سے ضرور واقف ہوں ، جو ضرورت کے وقت لوگوں کی مدد کرسکیں ،
مگر مخلوط درسگاہوں میں اور خاندانی نام اونچا کرنے اور شادی میں رشتوںکی سہولت کی نیت سے علم حاصل کرنا جائز نہیں ہے اور ناجائز ہونے والی چیزیں جس طرح چار سال ناجائز ہوں گی اسی طرح آٹھ، دس ماہ کے لئے بھی ناجائز ہی رہیں گی، اس قسم کی تعلیم کے لئے غیر مخلوط درسگاہ نہ ہوتو چونکہ یہ بھی ملت کی ایک ضرورت ہے؛
اس لئے ان شرطوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے کہ مسلم خواتین کی نشست لڑکوں سے الگ ہو، وہ پردہ میں ہوں اور ان کی کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت اور تنہائی کی نوبت نہ آتی ہو ۔یہ تو آپ کے متعلقہ سوال کے جواب ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں مسرت ہے کہ اس فضا اور ماحول میں رہنے کہ باوجود اللہ نے آپ کو دین پر اتنی استقامت عطاکی ہے،آپ ایک مثالی طالبہ کی حیثیت سے صرف اسی پر اکتفاء نہ کریں کہ اپنی ذاتی زندگی میں ان احکام سے روشنی حاصل کریں؛
بلکہ دیگرمسلمان بہنوں کی مدد سے اس بات کی کوشش کریں کہ حکومت آپ حضرات کے لئے ایسی سہولتیں فراہم کرے کہ آپ شرعی حدود میں رہ کر اس قسم کی تعلیم جای رکھ سکیں، ممکن ہے آپ کا یہ اقدام آپ کی بہت سی بہنوں کے لئے ایک روشنی ثابت ہو ۔