مذہب

شب برأت مغفرت کی رات

ماہ شعبان المعظم فضیلت وعظمت والا مہینہ ہے، اس مہینہ میں رسول کریم ﷺ کثرت سے روزوں کا اہتمام فرماتے، اس میں ایک شب ’شب ِ براء ت‘ بڑی برکت والی، مغفرت والی، رحمت والی، دعاء کی قبولیت والی رات ہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی مجددی قادری
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

متعلقہ خبریں
استقبالِ رمضان میں، نبی کریمؐ کا ایک جامع وعظ
شب برات: کر لیجیے توبہ اپنے گناہوں سے دوستو!
روزہ میں کن باتوں سے پرہیز ضروری ہے ؟
گائے اسمگلنگ کا شبہ، 4 مسلمانوں پر حملہ
نماز تراویح

ماہ شعبان المعظم فضیلت وعظمت والا مہینہ ہے، اس مہینہ میں رسول کریم ﷺ کثرت سے روزوں کا اہتمام فرماتے، اس میں ایک شب ’شب ِ براء ت‘ بڑی برکت والی، مغفرت والی، رحمت والی، دعاء کی قبولیت والی رات ہے۔ اس میں موت وحیات، مال ورزق جیسے اہم فیصلے ہوتے ہیں، عوام الناس اس مغفرت والی رات کو بڑوں کی عید یابڑوں کی فاتحہ کہتے ہیں۔ اور وہ اس میں مرحومین کیلئے فاتحہ، دعائِ مغفرت کا اہتمام کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟ ۔ سورہ حشر میں مومنین کی صفت اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی: رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ (سورہ حشر) ’اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لے آئے۔‘اس آیت سے ظاہر ہے کہ مومنین اپنی اور اپنے رشتہ دار، دوست، احباب اور دیگر مسلمانوں کی دعائِ مغفرت کا اہتمام کرتے ہیں، یہ سچ ہے کہ رب کریم اپنے بندوں کی بخشش کا بہانہ چاہتا ہے، بندہِ مومن اپنے لئے دعاء کرے یا اپنے مومن بھائیوں کے لئے دعا کرے ربُّ العلمین اس کے سب گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔

یقیناًدعا ہی وفات پانے والوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: اِذامات الانسان ا نقطع عملہ الا من ثلاث صدقۃ جاریۃ او علم یتقع بہ او ولد صالح یدعولہ (مسلم)’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے (سارے) عمل ختم ہو جاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھا یا جائے یا نیک لڑکا جو مرحوم کیلئے دعاء کرے ۔‘

یہ حقیقت ہے کہ عذابِ قبر بر حق ہے، نافرمان برزخی عذاب کے مستحق ہو تے ہیں، انہیں عذاب سے نجات دلانے اور ان کے درجات بلند کرنے والی عموما تین چیزیں ہیں: ایک صدقہ جاریہ، دوسرا دینی علم کے ذرائع، تیسرا اولادِ صالح کی دعائیں۔ استغفار کے علاوہ ایصالِ ثواب کا اہتمام مرحوم کی مغفرت کا باعث ہو تا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عن عائشۃ رضي اللہ عنھا ان رجلا قال للنبي ﷺ: ان امّي افتلتت نفسھا واظنھا لو تکلمت تصدقت أفلھا اجر ان تصدقت عنھا؟ قال: نعم (بخاری ومسلم) ’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزع گفتگو کر سکتی تو) صدقہ (کی ادائیگی کا حکم کرتی) اگر میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا انہیں ثواب ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں!۔‘ اس حدیث شریف کو امام مسلم نے فوت شدہ حضرات کو صدقات کا ثواب پہنچانے کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے۔ بے شک کثیر احادیث شریفہ سے ثابت ہے کہ زندہ اشخاص ایصالِ ثواب کے ذریعہ اپنے مرحومین کو تکلیف وعذاب سے راحت دلا سکتے ہیں۔ شبِ براء ت میں اکثر اہل سنت الجماعت اپنے مرحوم رشتے داروں کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی، ایصالِ ثواب کا اہتمام کرتے ہیں۔

کیا قبر پر جانابدعت ہے؟ ہر گز نہیں، ایسا کہنا گمراہی ہے۔ چونکہ بخاری شریف میں ہے: قال النبي ﷺ کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزورھا (بخاری) ’رسول ِ اعظم ﷺ نے فرمایا (اے لوگو!) میں نے تمہیں زیارت قبر سے منع کیا تھاتم زیارت قبر کیلئے جایا کرو۔‘ اس حدیث شریف میں زیارت قبور کا حکم دیا گیا۔ اس میں وقت، تعداد کی کوئی قید نہیں، زندگی میں جتنی مرتبہ چاہے زیارت قبر کیلئے جا سکتے ہیں۔ جتنی مرتبہ جائو گے مرُدوں کی مغفرت کا سامان ہو گا اور درجات کی بلندی ہوگی، اس عمل سے لوگوں کو منع کرنا شریعت کی مخالفت ہے۔ اور اس طرح کہنا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں ایک ہی مرتبہ شبِ براء ت قبرستان تشریف لے گئے تھے اس طرح کہتے ہوئے لوگوں کو عملِ خیر سے روکنا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ ممکن ہو شبِ براء ت میں قبرستان جانے کا حکم آخری ایام میں ملا ہوگا ، یا جنگوں میں شرکت کی وجہ سے شبِ براء ت میں مدینہ شریف میں زیادہ رہنے کا موقع نہیں ملا ہو گا، اس طرح کہنا کہ حضور نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ گئے تھے تم بھی ایک مرتبہ جائو یہ بالکل غلط فکر ہے جو خلافِ شرع ہے۔

حدیث شریف میں ہے: ماں باپ کی قبر کی زیارت اولاد کو نیک بنا دیتی ہے جیسا کہ فرمانِ رسول ؐ ہے: قال رسول اللہ ﷺ من زار قبر ابویہ أو احدھما في کل جمعۃ غفرلہ وکتب بارا (طبرانی) رسولِ اقدس ﷺ نے فرمایا جو کوئی اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کی قبر کی زیارت کیلئے ہر ہفتہ جاتا ہے تو اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور اس کا شمار نیک لوگوں میں کیا جاتا ہے۔

اصحاب ِ قبور کے ساتھ نبی کریم ﷺ کا طرزعمل کیا تھا؟ بخاری شریف میں ہے: مرالنبی ﷺعلی قبرین فقال: انھما یعذبان ومایعذبان في کبیر، ثم قال: بلی اما احد ھما فکان یسعی بألنمیمۃ، واماالاخر فکان لا یستنزہ من بو لہ، ثم اخد عوداً فکسرہ با ثنین ثم غرز کل واحد منھما علی قبر، ثم قال: لعلہ یخفف عنھما العذاب مالم ییبسا (بخاری) رسول کریم ﷺ کا گذر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپؐ نے فرمایا ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ان دونوں کو کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا ہے، پھر آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں (بلکہ) ان میں سے ایک کو چغلی کر نے کی وجہ سے اور دوسرے کو اپنے پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے (طہارت کا اہتمام) نہ کرنے کی وجہ سے پھر آپ ؐنے ایک (ہری) ٹہنی لی پھر اس کے دو ٹکرے کیے ہر ایک قبر پر ایک ایک ٹہنی لگائی، پھر آپؐ نے فرمایا : یقین ہے کہ ان پر شاخوں کی وجہ سے ان (مرحومین) کے عذاب میں تخفیف کی جائیگی۔ قبر پر تروتازہ ٹہنی رکھنا رسول کریم ﷺ کا عمل ہے، اگر کوئی شخص قبر پر تروتازہ ٹہنی رکھتا ہے تو یہ سنتِ رسول ہے، بدعت وناجائز عمل نہیں ، اتباعِ رسول میں اہل اسلام قبروں پر پھول چڑھا تے ہیں، راقمِ الحروف کا خیال ہے اگر وہاں پھول میسر ہوتے تو آپؐ پھول ہی منگواتے واللہ اعلم۔ بہر حال قبرستان جانا، مرحومین کیلئے ایصال ِ ثواب کا اہتمام کرنا کھانا پکا کر لوگوں کو کھلانا یہ سب امور شریعت مطھرہ سے جائز ومسحسن ہیں۔

کھانا کھلانا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔ اس لئے کہ اسلام میں روزہ توڑ نے کا کفارہ کھانا کھلانا، قسم توڑنے کا کفارہ کھانا کھلانا، ظھار کا کفارہ کھانا کھلانا یعنی ایک مسلمان سے جو روزہ توڑنے یا قسم کو توڑ نے یا ظھار کرنے کی وجہ سے جو گناہ ہوئے ہیں ان گناہوں کی معافی کھانا کھلانے میں ہے۔ پکوان تھوڑا ہو یا زیادہ ، میٹھا یا کھارا یہ سب گناہوں کے کفارہ کاباعث ہے، یقینا شبِ براء ت زندہ مردہ ہردو کیلئے نعمت عظمی ہے۔ غفلت ، سستی، کاہلی، کوتاہی کی وجہ اس شب کے فضائل وبرکات وانعامات سے ہر گز محروم نہ رہیں بلکہ اس میں سورہ یٰسٓ کی تلاوت، عبادات، دعائ، استغفار، قضائے عمری، نفل نمازیں، صدقہ وخیرات، زیارت قبور ان سب کا اہتمام رضائے الٰہی کی خاطر کریں۔

رب کریم نے سورۃ الدخان میں اس کی فضیلت و اہمیت کا تذکرہ اس طرح کیا:

حٰمٓ ‎﴿١﴾‏ وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ‎﴿٢﴾‏ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ‎﴿٣﴾‏ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ‎﴿٤﴾‏
روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل کیاہے، ہماری یہ شان ہے کہ یقینا ہم ہر وقت خبردار کر دیا کرتے ہیں، اس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

حضرت عکرمہ اور بعض علماء کا خیال ہے کہ ’’لیلۃ مبارکہ‘‘ سے مراد پندرہ شعبان کی رات ہے جس میں قرآن حکیم نازل ہوا، لیکن اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول شبِ قدر میں ہوا۔ محدثِ دکن ابو الحسنات حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب ؒقبلہ نقشبندی مجددی قادری نے ’’فضائل رمضان‘‘ میں اس کی بڑی عمدہ تشریح فرمائی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں: شب براء ت پندرہ شعبان میں قرآن اتارنے کی تجویز ہوئی اور شب قدر میں آسمان اول پر اُتارا گیا ، پھر تیئیس سال تک تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا میں اترتا رہا۔

متعدد احادیث شریفہ شب برات کی فضیلت میں وارد ہیں منجملہ ان میں کے یہ حدیث ہے: عن علي رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَھَا وَ صُوْمُوْا نھارھا فان اللہ یَنْزِلُ فِیْھَا لِغروب الشمس إلی سَماء الدُنیا فَیَقُوْلُ: الا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاغْفِر لہ، الا من مسْتَرْزِقٍ فَارْزُقَہُ، الا من مُبْتلی فاعَافِیہ، اَلا کَذَا اَلَا کَذَا حتی یَطْلُعَ الْفَجْر۔ (ابن ماجہ، شعب الایمان، کنز العمال)

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جب شعبان کی پندرھویں رات آئے تو اس میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیونکہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت سے اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ: ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو رزق دوں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اس کو نجات دوں، کیا کوئی ایسا ہے کیا کوئی ایسا ہے۔ یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔

خوش نصیب ہیں وہ حضرات جن کی شب نماز، تلاوتِ قرآن، ذکرِ رحمن، درود و سلام میں گذرتی ہے اور جو اپنے گناہوں کی معافی کے لئے دربارِ خدا میں گڑگڑا تے ہوئے، روتے ہوئے ہاتھ اٹھا تے ہیں اور رِزق کی کشادگی کی بھیک مانگتے ہیں اور تمام آفات وبلیات اور امراض سے عافیت کے لئے رحمن کی چوکھٹ پر سوالی بنتے ہیں۔

و نیز شب برات کی فضیلت میں اکثر صحابہ کرام سے روایتیں منقول ہیں: چنانچہ جامع ترمذی، ابن ماجہ مسند احمد میں ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت البقیع میں پایا کہ آسمان کی طرف حضورؐ اپنا سر اٹھائے ہوئے تھے، مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا: اِنَّ اللَّہَ یَنزل لیلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنیا فَیَغْفِرُ لاکثر مِنْ عَددِ شَعْرِ غَنَم کَلْب۔ یقینا اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر اپنی شان کے مطابق جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زاید لوگوں کی بخشش فرماتا ہے۔ اس برکت و رحمت والی شب میں حضورؐ کے جنت البقیع تشریف لے جانے کی وجہ سے امت مسلمہ کے لئے شبِ برات میں زیارت قبور مسنون و مستحب قرار پائی۔ملا علی قاریؒ، علامہ طحاویؒ نے اس حدیث کی بنا پر قبرں پر پھول ڈالنے کو سنت لکھا ہے اور علامہ شامیؒ نے اس حدیث کی بناء پر قبروں پر پھول ڈالنے کو مستحب لکھا ہے، فتاوی عالمگیری میں اس کو مستحسن کہا گیا۔

علامہ عینیؒ نے علامہ خطابیؒ کے حوالہ سے لکھا کہ اس حدیث میں قبروں کے پاس قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے استحباب کی دلیل ہے کیونکہ جب درخت کی تسبیح سے میت کے عذاب میں تخفیف کی امید ہے تو قرآن مجید کی تلاوت سے میت کے عذاب میں تخفیف کی زیادہ امید ہے۔

امام اعظمؒ اور امام احمدؒ کا مسلک یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔

شب براء ت میں موت، حیات، تقسیم رزق کے فیصلے ہوتے ہیں، اگرچہ ہماری تخلیق سے ہزاروں سال قبل جو کچھ ہوا، اور ہونے والا ہے وہ سب لوحِ محفوظ(تقدیر) میں لکھا جا چکا ہے، البتہ سال بھر میں کتنے لوگ پیدا ہونے والے ہیں اور کتنے لوگ وفات پانے والے ہیں اور کس کو کتنا رزق ملنے والا ہے ایسے اہم فیصلوں کے دفترشب براء ت میں فرشتوں کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں۔

بارگاہِ ایزدی میں دعاء ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کو شب براء ت کی رحمتوں، برکتوں سے مالا مال فرمائے اور اس فیصلے کی شب میں ہم سب کیلئے خیر کے فیصلے فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭